The news is by your side.

نیکی کا جذبہ، کارِ خیر اور رمضانُ المبارک

علم و ادب اور آرٹ کی دنیا کی معروف شخصیات سے ایک سوال اور ان کے جوابات

امیر ؔ مینائی نے کہا تھا

آخرت میں اعمال نیک ہی کام آئیں گے

پیش ہے تجھ کو سفر، زادِ سفر پیدا کر

بیشک آخرت کا زادِ سفر اعمال ہیں۔ نیک اعمال اگر ہوں گے تو آخرت کی منزل بھی آسان ہو گی۔ اسلام میں فرض عبادات میں روزہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا۔ “ روزہ ضبطِ نفس کا نام ہے جو محض بھوک پیاس برداشت کرنے سے مشروط نہیں ہے بلکہ اعمالِ صالحہ بھی اس کا اہم جزو ہے۔ ایک مسلمان کو عبادت میں لطف تو سال بھر ہی آتا ہے، لیکن ماہِ رمضان میں اس کی حلاوت اور لطف بڑھ جاتا ہے۔ رمضان کی میں نیک اعمال کا اپنا ہی کیف و اثر ہوتا ہے مگر بعض لوگ عبادات اور نیکیوں کو صرف رمضانُ المبارک کی سوغات سمجھتے ہیں اور سارا سال ذوق و شوق تو بڑی بات ہے، نیکیوں کو معمولی توجہ بھی نہیں دیتے۔ بھلا کیوں؟ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ رمضان کا چاند دیکھتے ہی نیکی کا جذبہ دل میں جنم لیتا ہے اور ماہِ مبارک ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ سارا جوش و خروش اور عبادت کے ساتھ چھوٹے بڑے نیک کام کرنے کا شوق ماند پڑ جاتا ہے۔ یوں عبادات اور کارِ خیر کی کثرت رمضان تک محدود نظر آتی ہے۔ جب کہ نیکی کا حکم اللہ نے مخصوص مدّت کے لیے نہیں دیا۔ کارِ خیر بالخصوص دوسروں‌ کے ساتھ نیکی اور بھلائی تو سارا سال اور بکثرت کی جانی چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ نیکی کا جذبہ جب عمل کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو لطفِ عبادت بھی بڑھ جاتا ہے۔

ہم نے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ شخصیات سے اس بارے میں ان کے خیالات معلوم کیے۔ ہمارا سوال تھا، ”عبادات کے ساتھ بکثرت چھوٹے بڑے نیک اعمال، بھلائی کے کام صرف ماہِ رمضان سے مشروط ہیں یا سال بھر اسی ذوق و شوق کے ساتھ ہر فرد کو اپنی حیثیت کے مطابق کارِ‌ خیر کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے؟“ ان شخصیات کے جوابات ملاحظہ کیجیے۔

 

  عذرا منصور (ٹی وی آرٹسٹ)

یوں تو ہم اپنے چاروں طرف بہت سے لوگ دیکھتے ہیں جو نمازی ہیں، اللہ کے فرماں بردار لگتے ہیں، لیکن وہ جذبہ اُن میں نہیں ہوتا جس کی ہدایت کی گئی ہے۔ خداوندِ کریم کہتا ہے کہ ”مجھے تمہارے نماز اور روزے نہیں چاہییں، میں یہ دیکھوں گا کہ تم نے میرے بندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا“ تو نیکی بھی ایک طرح سے دَین ہوتی ہے جو ہر ایک کو ملتی بھی نہیں اور نیکی صرف رمضان ہی میں کیوں؟ نیکیاں تو عمر بھر کرنی چاہییں، کیونکہ آخر میں جب ہم ربّ کے حضور جائیں گے تو وہاں پر ہماری نیکیاں ہی شمار کی جائیں گی، اور کوئی چیز نہیں گنی جائے گی۔ آس پاس، ہمارے جاننے والوں میں ہر جگہ ضرورت مند ہیں، سفید پوش ہیں، جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ وہ طالبِ علم جو تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، ایسے بیمار جو علاج نہیں کروا سکتے، ایسی بیٹیاں جو گھروں میں بیٹھی ہیں اور والدین اُن کی شادی کا بندوبست نہیں کر سکتے۔ گویا چاروں طرف حاجت مند ہیں۔ اگر ایک برتن میں پانی بھر کر رکھ دیں کہ چڑیاں پی لیں تو وہ بھی بڑی نیکی ہے۔ نیکی تو یہ بھی ہے کہ ماں باپ سے حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ کوئی سلام کرے تو مسکرا کر جواب دیں۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ نیکی ہر جگہ ہر وقت جہاں موقع ملے، ہر حال میں کرنی چاہیے۔ صرف رمضان ہی اس کے لیے مخصوص نہ ہو۔

 

  ڈاکٹر فاطمہ حسن (شاعرہ)

قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”میں نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔“ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنایا ہے تو اس کے ذمے کچھ خیر کے کام بھی ہیں جو کرنے ہیں اور وہ خیر کے کام ایک دن یا ایک ماہ کے نہیں ہوں گے بلکہ ان کو سال بھر اور ساری زندگی جاری رہنا چاہیے۔

  ڈاکٹر رفیعہ تاج (ماہرِ تعلیم)

بحیثیت مسلمان ہمیں نیکی اور بھلائی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ کسی خاص مہینے یا دن سے مشروط نہیں، لیکن چونکہ رمضان کا مہینہ بہت ہی بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ہے۔ اس کے تین عشرے ہیں۔ پہلا رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات کا۔ لہٰذا ہم اس مہینے میں زیادہ عبادات اور نیک کاموں کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ مہینہ ہمارے لیے ایک تحفہ ہے۔ اس ایک مہینے کی عبادات گویا ہماری تربیت کے لیے ہیں کہ ہم اپنے دین کی طرف راغب ہوں اور اپنی پوری زندگی کو سنوار لیں۔ صرف رمضان ہی میں نہیں ہمیں تاحیات نیک کام کرنے چاہییں تاکہ ہماری عاقبت سنور جائے۔

  شگفتہ آفتاب (سابق ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان، کراچی مرکز)

نیک کام تو سارا سال ہی کرتے رہنا چاہیے۔ اس کے لیے صرف رمضان کا مہینہ مخصوص نہیں ہے۔ دراصل اس ماہِ مبارک میں جذبے کچھ اور ہوتے ہیں، بندے اللہ سے زیادہ نزدیک ہو جاتے ہیں، نیکی کے جذبات بڑھ جاتے ہیں اور نیکی کی طرف دل زیادہ مائل رہتا ہے۔ لیکن ایک اچھے مسلمان کی حیثیت سے ہمیں سارا سال نیکیاں کرنی چاہییں۔ ضرورت مندوں کی مدد تو سارا سال کرنا چاہیے، اور اپنے عمل کو بہترین بنانا بھی ایک قسم کی نیکی ہے۔

محبوب سرور (ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان، کراچی مرکز)

میرے خیال میں‌ نیکی کی کوئی بھی صنف ہو، صرف رمضان تک محدود نہیں‌ رہنی چاہیے۔ نیکیاں نہ صرف لامحدود ہوں بلکہ خود نیکی کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی کارِ‌ خیر کی تلقین کرنی چاہیے۔

  راحیلہ فردوس (نیوز کاسٹر، نعت خواں)

نیکی اور اچھائی کا کسی وقت کے ساتھ تعین نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے اور نیکی کی خواہش بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے۔ جسے نصیب ہو جائے وہ خوش قسمت ہے۔

  ساجد علی شاہ (ٹی وی آرٹسٹ)

کوئی بھی نیکی کا کام اور عبادت صرف رمضان کے مہینے تک محدود نہیں رہنی چاہیے، علاوہ فرض روزوں کے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ سارا سال ہر روز کوئی نہ کوئی نیکی کا کام ضرور کرنا چاہیے۔ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ دوسروں کا احساس کریں، اُن کے کام آئیں، اپنے سے کم استطاعت والوں کی مدد کریں، اُن کے کھانے پینے کا خیال رکھیں، بیماروں کا علاج کروائیں۔ غرض اللہ تعالیٰ جس نیک کام کی بھی توفیق دے اس کی نیت کر کے عمل کریں۔ میری نظر میں سب سے بڑی نیکی دوسروں کے مسائل حل کرنا ہے، جس حد تک ہو سکے اُن کے جائز کاموں میں مدد کریں۔ خاص کر کھانے پینے میں، غریبی میں۔ اس کے لیے رمضان کے مہینے کی کوئی قید نہیں رہتی۔

  شکیل الدّین (براڈ کاسٹر)

نیکی کا جذبہ تو ہر انسان میں موجود ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا انسان ہوگا جو نیکی کا موقع ہاتھ سے جانے دے گا۔ مگر اس کے باوجود ہم کوتاہی برتتے ہیں، غافل ہوجاتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں نیکی کے کسی موقع کو۔ جیسے کسی کو پانی پلا دینا نیکی ہی تو ہے، مگر ایسا موقع آتا ہے تو ہم افسر بن جاتے ہیں، ہماری عزتِ نفس مجروح ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کو پانی پلا دیں، کسی نابینا کو سڑک پار کرا دیں یہ سوچ کر پلاسٹک کا شاپر ہٹا دیں کہ کوئی پھسل نہ جائے تو یہ تمام نیک اعمال ہیں۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ثواب سے مالا مال کر سکتی ہیں۔ نیکی کے جذبے کو رمضان تک محدود کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ سلسلہ تو روز صبح اٹھنے کے بعد جب تک اپنے بستر پر نہ جائیں جب جب موقع ملے جاری رہنا چاہیے۔

  لیلیٰ واسطی ( ٹی وی آرٹسٹ)

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ہم سے دو چیزیں چاہتا ہے، نیکی کرنا اور شکر گزاری کرنا۔ نیکی کا حکم صرف ایک مہینے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ ہماری زندگی کا نچوڑ ہے۔

  عفّان وحید (ٹی وی آرٹسٹ)

ظاہر سی بات ہے نیکی کے جذبے کو سارا سال قائم رہنا چاہیے، لیکن چونکہ رمضان وہ خاص مہینہ ہے جس میں اللہ کی رحمت وسیع ہوتی ہے اور فطری طور پر نیکی کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے اس لیے نیکی کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باوجود نیکی کے جذبے کو رمضان تک محدود رکھنے کے بجائے سارا سال نیکی کے عمل کو جاری رکھنے ہی میں بہتری ہے۔

  عرفان واسطی (شیف)

عبادت رمضان کیا سارا سال کریں لیکن اپنے دل کو صاف رکھنا چاہیے۔ یہ یقین کہ ہمارا دل صاف ہے اس سے بڑھ کر باعثِ تسکین تو کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ سو میں جو بھی عمل کرتا ہوں خواہ وہ اپنے لیے ہو یا اوروں کے لیے خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہوں۔

منیٰ طارق (ٹی وی آرٹسٹ)

نماز، تلاوتِ قرآن کے ساتھ جو تھوڑی بہت تسبیح ہم پڑھ لیتے ہیں یہ تو سال بھر ہوتا ہے۔ رمضان میں خاص طور پر کوشش ہو کہ عبادت کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت اپنے آپ کو دیں اور اللہ کی اس حکمت پر غور کرنا چاہیے کہ رمضان کے ان تیس دنوں میں روزے ہم پر فرض کیوں کیے گئے؟ اس کی اصل وجہ کیا تھی؟ صبر؟ جی ہاں صبر اور برداشت۔ سو روزہ رکھ کر غصہ تو بالکل نہیں کرنا چاہیے، میں بہت کوشش کرتی ہوں اس بات پر عمل کرنے کی۔ غصہ پر برداشت سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ سحری سے افطاری تک اللہ روزے داروں کا صبر دیکھتا ہے۔ سو میں روزے کی حالت میں صبر اور برداشت سے کام لینے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔

  آغا طلال (ٹی وی آرٹسٹ)

رمضان سب سے اچھا موقع ہے ثواب بٹورنے، نیکیاں کرنے اور اپنے بہتری لانے کا۔ رمضان کو پریکٹس کے طور پر لینا چاہیے۔ نیک عمل کو بار بار کرنے کا اثر یہ ہو گا کہ رمضان ختم ہونے کے بعد بھی وہ ہماری زندگی کا حصّہ رہیں گی۔ رمضان میں‌ لوگ ثواب کی نیّت سے نیکیاں کرتے ہیں لیکن اگر سارا سال یہی نیکیاں بغیر کسی لالچ کے کریں تو ہر مہینے یہ عمل جاری رہے گا۔ گویا رمضان اپنی اصلاح کرنے کا ایک بہترین موقع ہے جس میں‌ آنے والا بدلاؤ رمضان کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ہماری جگہ بنائے گا اور ہماری دنیا اور آخرت بھی سنور جائے گی۔

  فریحہ عاقب (کوآرڈینیٹر رشین کلچر سینٹر)

رمضان میں عبادت کا درجہ زیادہ ہوتا ہے۔ عام دنوں سے بڑھ کر عبادت کی جاتی ہے اس سے ہماری نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہم مفلسوں کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کرتے ہیں اور نیکیوں کی عادت بھی پختہ ہوجاتی ہے۔ نیکی کا جذبہ پورے سال کے لیے ہونا چاہیے۔

معزز قارئین! بے شک انسانوں‌ کے ساتھ بھلائی اور احسان کرنے یا کارِ خیر کی کثرت مخصوص مہینہ یا مقررہ ایّام میں‌ ہی کیوں کی جائے؟ حسبِ توفیق کارِ خیر کا اپنا ہی لطف ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے ”اعمال کا دار و مدار نیتّوں پر ہے۔“ بلا شبہ نیک نیتی ہی عملِ خیر کی پہلی سیڑھی ہے اور رمضان المبارک کی پُر نور ساعتوں میں عبادات کے ساتھ ساتھ نیکیوں‌ کی عادت اپنانا ہمارے لیے باعثِ راحت و ثواب ہو گا مگر عام دنوں‌ میں‌ بھی ہمیں‌ یہ سلسلہ اسی ذوق و شوق سے جاری رکھنا چاہیے۔

بشر اعمال کر اچھے ترے عقبیٰ میں کام آئیں

وہاں جنّت نہیں ملتی یہاں سے ساتھ جاتی ہے

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیکی کی راہ کا مسافر بنائے۔ کچھ اس طور کہ کارِ خیر ہماری زندگی کا معمول بن جائے (آمین)

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں