رمضان کے اختتام پر عید دراصل اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک ہے اور اس کے تصور ہی سے روزہ دار کے دل میں خوشی کے دیپ جلنے لگتے ہیں۔
ہر عمر کی عید ہمیں خوشی اور مسرت کے احساس کے ساتھ اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ بچپن کی عیدیں واقعی یادگار ہوا کرتی تھیں۔ عید سے وابستہ معصوم آرزووئیں، شرارتیں، بے فکری کے دنوں کی تفریح کا اپنا ہی لطف تھا۔ عید کی خریداری اور اُن اشیاء کو برتنے کے لیے عید کی صبح کا انتظار ہماری خوشیوں میں عجیب رنگ بھر دیتا تھا۔
زندگی کے مختلف ادوار میں ہماری عید کی خوشیوں کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ بچپن، لڑکپن، نوجوانی کے ادوار بالخصوص میکے کی آخری اور سسرال کی پہلی عید خواتین بھلائے نہیں بھولتیں۔ اس کے علاوہ بھی بعض عیدیں ایسے یادگار لمحات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ ہر نئی آنے والی عید اُن عیدوں کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ ماضی کی یادیں ہماری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں۔ اگر خوش گوار ہوں تو اُن کا خیال بھی دل میں پھول کھلا دیتا ہے اور اگر تکلیف دہ ہوں تو دل میں درد مہکنے لگتا ہے۔ عید کے موقع پر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے اپنوں کی یاد بہت شدت سے ستاتی ہے۔
اس برس عیدُالفطر کے موقع پر ہم نے مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ مشہور و معروف شخصیات سے ان کی یادگار عید کے بارے میں دریافت کیا جو اے آر وائی کے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔
جہاں آراء حئی (ٹی وی آرٹسٹ)
ہمیشہ عید کا اہتمام جوش وخروش سے کیا، اس لیے ہر عید خوشیوں سے بھرپور اور یادگار رہی لیکن ایک عید ایسی بھی تھی جس نے خوشی کے رنگوں میں اور کئی خوشگوار رنگ بھردیے تھے کہ اس عید کے فوری بعد ہماری شادی تھی۔ وہ میکے میں ہماری آخری عید تھی۔ میں مایوں بیٹھی تھی۔ گھر والوں کی توجہ اور محبت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ ہماری حیثیت مہمان خصوصی کی تھی۔ ہم نے بھی خوب ناز اٹھوائے۔ چاند رات کو ہم نے فلک پر چاند دیکھا اور عید کے روز ہمارے گھر کے آنگن میں مستقل قریب کے جیون ساتھی چاند بن کر نمودار ہوئے۔ جی ہاں وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ جو ہماری عیدی لائے تھے خود بھی بنفس نفیس تشریف لائے۔ ہم ان کے سامنے نہیں آئے تھے۔ سسرال سے تو شاندار عیدی آئی ہی تھی۔ وہ بھی ہمارے لیے خط، عید کارڈ اور پھولوں کی سوغات لائے تھے، جو ہماری بہن کے توسط سے ہم تک پہنچی اور ہماری عید کا لطف دوبالا کر گئی۔ ہم کیوں پیچھے رہتے جوابی کارروائی کے طور پر ہم نے بھی بہن کے ذریعے پھول بھجوا دیے۔ اُس عید پر عجیب سے احساسات تھے۔ اگر میکے کی آخری عید کا ملال تھا تو ایک نئی دُنیا بسانے کے سپنے بھی آنکھوں میں سجے تھے۔ ساتھ ہی نیا گھر بسانے کے لیے امی کی نصیحتیں اور ان پر عمل کی تاکید۔ ہم نے بھی سسرال جا کر ان پر خوب عمل کیا جس سے زندگی بہت شادمان گزری۔
تاجدار عادل(شاعر، سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی ویژن)
عیدیں تو بچپن کی ہوتی تھیں، لیکن ایک عید ایسی تھی جو پہلی بار گھر والوں سے دور منائی۔ ورنہ جب اسلام آباد میں پی ٹی وی ہیڈ کواٹر میں ٹرانسفر ہوا تو عید کے موقع پر چھٹی لے کر کراچی آجاتے تھے، مگر جب پہلی بار ٹریننگ پر جرمنی گئے تو اس زمانے میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے کے روزے رکھے اور عید کے دن ٹریننگ سینٹر میں کام کرتے رہے۔ شام کو اکیلے برلن میں ایک کیفے میں بیٹھ کر چائے پیتے رہے اور گھر کی عید یاد کرتے رہے۔ اس لحاظ سے وہ یادگار عید تھی۔
غزالہ کیفی (ٹی وی آرٹسٹ)
ہاں، بچپن کی عید ہمیں عید لگتی تھی اور ہمیں بہت خوشی اس لیے ہوتی تھی کیوں کہ ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ عیدی ملے گی۔ ہم لوگوں کے گھر جائیں گے، لوگوں سے ملیں گے۔ ہمیں نئے کپڑے اور جوتے ملیں گے۔ اس طرح جب چھوٹے تھے تو بڑے پُرجوش ہوتے تھے۔ اور اب بڑوں کی تو کیا کہیے بچّوں میں بھی عید کا وہ جوش و خروش نہیں ہوتا کہ عید پہ عیدی ملے گی، چوڑیاں لیں گے، مہندی لگے گی، نئے کپڑے بنیں گے۔ اب تو ہر دوسرے دن یہ ساری چیزیں مل جاتی ہیں۔ عید کارڈز بھیجنے کا بہت جوش ہوتا تھا۔ اکثر رمضان سے پہلے ہی عید کارڈ خرید لیے جاتے تھے کہ ان پر کوئی پیغام بھی لکھنا ہے۔ انھیں پوسٹ کر کے بھیجوں گی، دوستوں کی طرف سے بھی عید کارڈز آئیں گے اور شدت سے اُن کا انتظار کیا جاتا۔ موصول ہونے والے عید کارڈز بہت سنبھال کر رکھے جاتے تھے، بار بار اُن پر لکھی تحریر پڑھی جاتی اور ہر بار پڑھ کر پہلی سی خوشی ملتی۔ اب تو عید کی یہ خوشیاں ہی نہیں رہیں۔ واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے سب کو عید مبارک کہہ دیا جاتا ہے۔ عید کارڈز اور عید کے پیغامات وہیں مل جاتے ہیں۔ پہلے کی تمام عیدیں بہت بھرپور اور یادگار ہوا کرتی تھیں۔ کسی ایک عید کا تعین کرنا میرے لیے مشکل ہے۔
خالد معین (شاعر، ناول نگار، سینئر صحافی)
عام طور پر بچپن کی عیدیں انسان کی بہترین اور یادگار ترین تصور کی جاتی ہیں اور واقعی یہ مجموعی خیال آرائی میرے نزدیک بھی درست ہے۔ خود میری وہ عیدیں جو بچپن اور لڑکپن میں گزریں زندگی کی خوبصورت ترین عیدیں کہی جا سکتی ہیں۔ اس زمانے میں بچوں کے نئے ملبوسات عیدیا کسی خاص رشتے دار کی شادی پر ہی بنتے تھے، تو ایک بڑی خوشی نئے ملبوس کی ہوتی تھی اور عید کے دن انڈہ فری ملنے کا بھی امکان ہوتا تھا (قہقہہ) کتنی معصومانہ خوشیاں ہوتی تھیں۔ عیدی کا ملنا، ماں سے چھپانا اور دو تین دن آزادی اور فراوانی سے عیدی خرچ کرنا ایک بڑی عیاشی ہی تھی۔ جب تھوڑے بڑے ہوئے اور اتنے بڑے ہو گئے کہ ماں کے جلدی گزر جانے کے بعد ایک بار والد صاحب کے لیے ڈرتے ڈرتے عید کا جوڑا لینے کی خواہش کا اظہار کیا اور اُن کی جانب سے نیم رضا مندی کا اشارہ ملا تو مت پوچھیے کہ کتنی دلی اور روحانی مسرت ملی۔ وہ عید میں بھول ہی نہیں سکا۔ اب سوچتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کہ ماں باپ کتنی عظیم ہستیاں تھے اور ہم اب تک چھوٹے کے چھوٹے کیوں رہ گئے۔
مصطفیٰ ہاشمی (ادیب اور ڈرامہ نویس)
سچ تو یہ ہے کہ بچپن اور نوجوانی میں ہی ہم عید کو انجوائے کرتے ہیں۔ زندگی کے اس دور میں عیدی سے لے کر نئے کپڑوں کا مزہ، باہر گھومنے پھرنے کے لیے، اور رشتہ داروں کے گھر جانا ایک بڑی پُرجوش مہم جیسا ہوتا تھا۔ پھر وہاں سویاں اور طرح طرح کے پکوان دستر خوان پر چنے جاتے تھے اور جب اپنے ہم عمردوستوں جیسے کزنز سے ملتے تو خوشی دوبالا ہو جاتی تھی۔ لیکن جب خود میں عیدی دینے والوں میں شامل ہوا تو میری زندگی میں ایک ایسی عید آئی جس نے اسکول کے دنوں کی یاد تازہ کردی جب میں ہر فکر سے آزاد ہوا کرتا تھا۔
چھٹی جماعت سے آٹھویں تک میرایک اہم جماعت عبید بھی تھا۔ اس کے والدین کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تھا۔ والد کی کراچی میں کپڑے کی دکان تھی اور اس لیے وہ اپنے کنبے کے ساتھ یہاں سکونت پذیر تھے، لیکن پھر انہوں نے لاہور شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ہم آٹھویں جماعت کا امتحان دے رہے تھے۔ عبید نے بتایا تھا کہ وہ جلد لاہور چلا جائے گا۔ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ پیپرز کے بعد دوست سے ملاقات ہی نہیں ہو پائے گی۔ رزلٹ آیا اور ہم نویں جماعت میں پہنچ گئے، لیکن اب وہ ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ کبھی دوستوں کے درمیان اس کا ذکر نکل آتا تھا مگر رابطہ نہیں تھا۔
یہ 2016 کی بات ہے۔ عید الفطر کا تیسرا دن تھا، میں اپنی رہائشی سوسائٹی کی مسجد میں عصر کی نمازادا کر کے نکلا تو کسی نے میرا نام پکارا۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک باریش اور خاصے تنومند صاحب تھے جو کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ آگے بڑھے اور میرا پورا نام لے کر سوالیہ انداز میں دیکھنے لگے۔ وہ عبید تھا۔ میرے اثبات میں سَر ہلانے کی دیر تھی کہ وہ بے اختیار گلے لگ گیا اور ساتھ ہی اپنا تعارف بھی کروا دیا۔ یوں وہ عید یادگار ثابت ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ والدین کے انتقال کے بعد اس نے اپنی اکلوتی چھوٹی بہن کی شادی کراچی میں کی تھی اور وہ خاندان اسی سوسائٹی میں رہتا تھا۔ عبید اس عید پر اپنی فیملی کے ساتھ بہن کو ملنے لاہور سے کراچی آیا ہوا تھا۔ یوں ایک بچھڑا ہوا دوست کئی برس بعد مل گیا تھا اور آج بھی ہم رابطے میں رہتے ہیں۔
ایاز خان (کامیڈین)
ایک شو کے لیے امریکہ گیا تھا، اور وہاں میں نے عید منائی تھی۔ لاس اینجلس کی مسجد میں تمام پاکستانیوں نے عید کی نماز پڑھی، نماز میں نے پڑھائی تھی۔ وہاں مقیم تمام پاکستانی نہایت محبت اور عزت سے پیش آئے۔ کئی لوگوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اتنی محبتیں پاکر محسوس نہیں ہورہا تھا کہ وطن سے دور ہوں لیکن اس خوشی کے موقع پر گھر، بچّوں اور بیگم کی کمی بہر حال محسوس ہوئی۔ عید کی رات کو شو ہوا، سب نے بہت انجوائے کیا۔
غزالہ جاوید (آرٹسٹ)
ایک مرتبہ میں نے اپنے والدین کے ساتھ لندن میں عید منائی۔ اچانک عید سے دو تین روز پہلے پہنچ کر اُنہیں انتیس کے چاند کی سی مسرت دی تھی۔ اُن کی خوشی قابلِ دید تھی۔ کافی عرصے کے بعد تمام گھر والے عید پر یکجا ہوئے تھے۔ حالانکہ عید کی شاپنگ میں نے یہاں سے کر لی تھی لیکن امی نے میری، میرے میاں اور بچّوں کی بھرپور شاپنگ کروائی۔ اکلوتی بیٹی اور بہن ہونے کا بھی میں نے کافی فائدہ اٹھایا۔ امی ابو اور دونوں بھائیوں کے ساتھ ابو کے دوستوں نے بھی تحائف دیے جو زیادہ تر گولڈ کی شکل میں تھے اور ان سب سے بڑھ کر قیمتی ان کے محبت اور اخلاص بھرے رویّوں نے اس عید کو میرے لیے بہت یادگار بنا دیا۔ ان لمحوں کی سنہری یادیں آج بھی میرے اندر اجالے بکھیر دیتی ہیں۔
شگفتہ بھٹی (مصنفہ، ڈرامہ نویس)
میں چونکہ امی سے زیادہ ابو کی لاڈلی اور سہیلی تھی تو عید کی ساری تیاری اُن کے ساتھ مل کر کرتی تھی۔ وہ میری کوئی فرمائش نہیں ٹالتے تھے اور گھنٹوں میں اُن کے ساتھ بازار میں گھومتی رہتی اور وہ ذرا نہیں گھبراتے تھے۔ ایک عید پر مجھے جامنی رنگ کی نیل پالش چاہیے تھی۔ جامنی رنگ کی نیل پالش ہمارے چھوٹے سے شہربہاول نگر کے چھوٹے سے بازار کی کسی دکان پر دستیاب نہ تھی اور مجھے ضد تھی تھی کہ وہی چاہیے۔ ہم اسکول کی سہیلیوں کا گروپ عید کی شام کو یا اگلے دن عیدی کے پیسوں سے مل کر پارٹی کرتا تھا۔ میری بیسٹ فرینڈ نے کہہ دیا تھا کہ سوال ہی نہیں ہوتا کہ تمہیں جامنی رنگ کی نیل پالش مل جائے اور میں نے اسے چیلنج کے طورپر لے لیا تھا۔ کہیں سے یہ رنگ نہیں مل رہا تھا۔ یہاں تک کہ چاند رات ہو گئی اور میں رونے لگ گئی۔ میرے ابو میرا رونا برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ صبح اٹھتے ہی میرے تکیے کے ساتھ نیل پالش ہو گی۔ شرط یہ ہے میں رونا بند کروں اور سکون سے سو جاؤں۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر میں دیکھتی شاید ابو نے چپکے سے رکھ دی ہو اور پھر مایوس ہو کر چپکے چپکے روتی رہی۔ یہاں تک کہ سو گئی۔ مگر جب اٹھی تو واقعی جامنی رنگ کی نیل پالش میر ے سرہانے پڑی تھی۔ میں خوشی سے دیوانہ وار ابو جی کو پکارتی ہوئی اُن سے جا لپٹی۔ ”ابو جی یہ آپ نے کہاں سے لی؟ کیسے ملی آپ کو؟ بازار میں تو نہیں تھی اور وہ مسکرا کر کہہ رہے تھے اب اسے اپنے ناخنوں پر لگا لو یا میں لگاؤں؟ اس روز میں سہیلیوں میں اتراتی رہی۔ بعد میں امی نے بتایا کہ یہ نیل پالش ابو نے اپنے پینٹر دوست سے بیٹھ کر بنوائی تھی۔ انہوں نے جامنی رنگ کا آئل پینٹ پرانی نیل پالش کی شیشی میں بھر دیا تھا۔ میرے پیارے ابو جی میری خواہش پوری کرنے کے لیے رات بھر کوشش میں رہے۔پھر میں نے اس نیل پالش کو قیمتی چیز کی طرح سنبھال کر رکھا۔ میرے ابو ہر عید پر مجھے رنگ برنگی نیل پالش لا کر دیتے اور کہتے، ”میری بیٹی جب نیل پالش لگا کر اپنے ہاتھ بار بار پیار سے دیکھتی ہے تو اس کے چہرے کی چمک میرے دل کو بڑی توانائی دیتی ہے۔ اور میں کئی دن خوش رہتا ہوں۔“ مجھے وہ عید ہر عید پر یاد آتی ہے۔ کسی کے لیے یہ معمولی بات ہوسکتی تھی، لیکن میرے لیے یادگار۔
اجنبی المعروف اجو بھائی (سینئر براڈ کاسٹر، اداکار، استاد، قلم کار)
عید الفطراللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کے لیے تحفہ ہے جو رمضان کے روزوں کے عوض عطا کیا گیا ہے۔ اس لیے روحانی طور پر ہر عید ہمارے لیے یادگار ترین ہوتی ہے لیکن اگر دنیاوی حوالے سے بات کی جائے تو بہت سی عیدیں یا تو خوش گوار یادوں سے نتھی ہوتی ہیں یا کسی ناخوش گوار واقعہ کی بدولت غم سے بھی آراستہ ہوتی ہیں۔ انسان جیسے جیسے عمر کے مختلف پڑاؤ طے کرتا جاتا ہے اسے لگتا ہے بچپن سے زیادہ حسین، جوانی سے زیادہ رنگین عید پھر نہیں آئی۔ عمر کے ادوار میں ہمیشہ بچپن بازی لے جاتا ہے۔ میری بھی یادگار عید بچپن کی ہی ہر عید ہے۔ جب صبح سویرے تیار ہو کر نانا جان، امی ابا جان سے عیدی لینے کے بعد محلّے کی چھوٹی دکان پر جا کر چنا چاٹ کھاتا، رنگ برنگا شربت پیتا (جس کے بعد گلا خراب ہو جایا کرتا) پھر نانی گھر اور دادی گھر جاتا۔بچپن کی یہ عیدیں اس لیے یادگار رہیں کہ خوش نصیبی سے سب رشتے، بزرگ حیات تھے۔ لگتا تھا واقعی بہت سے سایہ دار درخت ہیں جو ہماری خوشیوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔
ایک یادگار واقعہ یہ ہے کہ ہم سب بہن بھائی ایک بار ابّا جان کے ساتھ عید کی شاپنگ کے لیے صدر گئے۔ مجھے بڑی مشکل سے ایک شلوار قمیص پسند آیا، خرید لیا گیا، بڑی بہن نے وہ تھیلا پکڑا مگر پتہ نہیں کیسے ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ جب واپس گھر جانے لگے تومیرا سوٹ نہیں تھا۔ بہن کو بھی افسوس تھا اور میں غصہ ہو رہا تھا، مگر آفرین ہے والدین کی عظمت پر، ابّا جان نے کچھ کہے بغیر ہی دوسرا سوٹ دلا دیا کہ عید خراب نہ ہو جائے۔ اب نہ والدین رہے، نہ وہ باتیں، نہ وہ عیدیں۔
شاہین ضمیر (سینئر بینکار، آر. جے ایف ایم ریڈیو)
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکا تو تین عیدیں یادگار معلوم ہوتی ہیں۔ بچپن کی دو عیدیں۔ ایک عید اس لیے یادگار ہے کہ امی نے چاند رات پر ہم بچوں کے بالوں میں تیل لگایا تھا اور صبح سر دھونے کو گئے تو پانی غائب تھا۔ یوں ”کل کے کراچی اور آج کے کراچی میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔“ دوسری وہ عید ہے جب ہم اپنی سہیلیوں کے گھر عید ملنے کے بعد سب کو لے کر اپنے گھر چلے آئے جہاں ہماری امی اپنی سہیلیوں کے ساتھ ناشتے کی میز پر موجود تھیں لیکن ہم بچّوں نے کچھ نہ دیکھا اور دھاوا بول دیا۔ تیسری یادگار عید وہ ہے جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا۔میں الحمدُللہ اُن خوش نصیبوں میں شامل تھی جسے دورانِ تعلیم آخری سمسٹر میں من پسند جاب بھی مل گئی تھی۔ ٹیلیویژن پر خبریں پڑھنے کا آغاز بھی کر دیا تھا اور چند مہینوں میں مجھے بھی خبرنامہ پڑھنے کا موقع مل گیا تھا۔ پہلی عید پر میری ڈیوٹی خبرنامہ پڑھنے کی تھی جس کی میں نے خاص تیاری کی تھی۔ عید تو چاند سے مشروط ہوتی ہے اور میرے خبریں پڑھنے کے دن، دنوں کے اعتبار سے مخصوص تھے اور چاند کے اعتبار سے میرا دن خبرنامہ پڑھنے کے لیے پڑا تھا۔ میری خوشی دیدنی تھی کہ میری ساری تیاری کام آگئی تھی۔
عمران عباس (فن کار)
اب تو ساری عیدیں ہی یادگار لگتی ہیں، وہ عیدیں جن میں ہمارے پیارے ہمارے ساتھ تھے۔پچھلے سال میری والدہ کا انتقال ہوا۔ اس سے پہلے میرے والد کا اور اس سے پہلے میری بہن کا انتقال ہوا۔ بہن کے جانے کے بعد ہی عیدیں پھیکی پھیکی سی ہونے لگی تھیں اور جب ماں باپ کا سایہ اُٹھ گیا تو پھر تو عید کا لطف اور دل کشی بالکل ہی نہیں رہی۔ جب کوئی چیز آپ کے پاس نہیں ہوتی تو اس کی قدر و قیمت کا احساس زیادہ ہونے لگتا ہے۔ اب جب مڑ کر دیکھتا ہوں تو ہر وہ عید یادگار لگتی ہے جس میں ہم سب ساتھ ہوتے تھے اور اب عید آتی ہے تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ
کسی کی یاد منانے میں عید گزرے گی
سو شہرِ دل میں بہت دور تک اُداسی ہے
کئی عیدیں میری ایسی بھی تھیں جب شوٹنگ کی وجہ سے میں گھر پر نہیں شہر یا ملک سے باہر ہوتا تھا، لیکن یہ احساس کہ بے شک فاصلہ ہے لیکن ہمارے پیارے اسی دنیا میں موجود تو ہیں، رابطے میں ہیں، بہت خوبصورت ہوتا تھا۔ بچپن کی عیدیں بہت یادگار تھیں جب عید کے کپڑے اور جوتے ساتھ رکھ کر ساری رات دیکھتے تھے کہ صبح ہوگی تو پہن کر باہر جائیں گے۔ والد صاحب کا ہاتھ پکڑ کرعید کی نماز پڑھنے جاتے تھے۔ پھر اور بڑے ہوئے تو چاند رات کو موٹر سائیکل پر نکلتے تھے۔ اُن عیدوں کی خوشبو ہی الگ ہوتی تھی جو پوری فضا، محلّے اور گلی میں پھیلی ہوتی تھی۔ اب عید کا وہ مزہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ اب تو لوگ بس فون پر ہی مبارک باد بھیج دیتے ہیں۔ یا پھر عید کارڈ واٹس ایپ کر دیتے ہیں۔ ورنہ پہلے جب عید کارڈ آتے تھے اپنے کزنز اور رشتہ داروں کے ہم پڑھتے تھے اور ان کو بھیجتے تھے، اس کی خوب صورتی ہی کچھ اور ہوتی تھی، پھر عیدی جو بہت کم ہوتی تھی لیکن عیدی ملتے ہی ہوتا تھا کہ بازار جا کر جلدی جلدی کولڈ ڈرنک بھی پینی ہے، چپس بھی کھانے ہیں،آئسکریم بھی کھانی ہے۔ اب پیسہ آگیا تو وہ مزے ختم ہو گئے۔ ہمارے والد صاحب جب جب عیدی دیتے تھے وہ بہت کم ہوتی تھی لیکن عیدی کی وہ رقم ہمیں بہت لگتی تھی۔ لیکن ایک شعر ہے نا
کھلونے پالیے ہیں میں نے لیکن
میرے اندر کا بچہ مر گیا ہے
تو بس جب یہ سب چیزیں آگئی ہیں تو وہ اندر کا بچّہ نہیں رہا ہے۔
شاہینہ رفیع (براڈ کاسٹر)
میری سب سے زیادہ یادگار عید وہ تھی جب ایف ایم پر عید شو کر رہی تھی۔ ایک بڑے فن کار کو آن لائن لینا تھا۔ ہم نے اعلان کر دیا تھا، ہمارے سامعین بہت پُرجوش تھے، اُن کو بڑی شدت سے اس شخصیت کا انتظار تھا۔ لیکن بار بار رابطے کے باوجودوہ فون ہی نہیں اٹھا رہے تھے۔ ان کے انتظار میں ہم نے چار گانے اور سنوا دیے یہ کہہ کر کہ تھوڑی دیر اور انتظار کیجیے۔ پندرہ منٹ ایسے ہی نکل گئے۔ اچانک اسٹوڈیو کا دروازہ کھلا اور آنے والے نے جب دیکھا کہ خواتین بیٹھی ہیں، شو ہو رہا ہے تو وہ معذرت کر کے ایک دم واپس جانے لگے، میں ایک دم کھڑی ہو گئی اور کہا کہ سَر پلیز آئیے آئیے۔ (وہ کوئی اور نہیں معین اختر صاحب تھے۔ کراچی اسٹیشن پر ایک فلم کی شوٹنگ کے لیے آئے تھے۔ شوٹنگ میں ابھی وقت تھا) انھوں نے پھر معذرت کی اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا شو ہو رہا ہے۔ میں نے کہا آپ آ ہی گئے ہیں تو تھوڑا سا وقت ہمیں دے دیجیے۔ شو میں آپ کی شرکت سے ہماری عید کی خوشی دوبالا ہو جائے گی۔ ریڈیو کے حوالے سے کچھ باتیں اور یادیں ہمارے سامعین کے ساتھ شیئر کر دیجیے گا۔ وہ بخوشی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور کہنے لگے یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ میں خود بھی کراچی اسٹیشن سے وابستہ رہا ہوں۔ جب مجھے انتظار ہی کرنا ہے تو آپ کے شو میں شرکت کر کے کیوں نہ کروں۔ یہ ہمارے لیے اتنا بڑا سرپرائز تھا کہ معین اختر صاحب نے اتفاقیہ نہ صرف ہمارے شو میں شرکت کی بلکہ اس شو کو زبردست پذیرائی ملی اور مجھے لگا کہ ہمارے اس مہمان کی جگہ اتفاقاَ آجانے والے معین اختر نے شو میں جان ڈال دی ہے۔ انھوں نے کچھ اپنے اسٹیج شوز کے ٹکڑے سنائے، چٹکلے اور ریڈیو کے حوالے سے یادیں تازہ کیں۔ ہمارا عید شو بہت اچھا اور کام یاب رہا۔ یوں وہ عید ہمارے لیے یاگار ہو گئی۔
سارہ رضا خان (مغنیہ)
میں گائیکی کے مقابلے سا رے، گا ما میں شرکت کے لیے 2008ء میں بھارت گئی تھی۔ میں پہلی پاکستانی لڑکی تھی جس نے موسیقی کے اس پروگرام میں حصّہ لیا۔ چھ ماہ وہاں قیام رہا تھا۔ رمضان اور عید وہیں گزارے تھے، عید کی شاپنگ بھی کی۔ بہت خوشی ہو رہی تھی جب لوگ مجھے پہچان گئے، آٹو گراف لیا اور پاکستان کے بارے میں پوچھتے تھے لیکن بہت حیرت ہوئی کہ تہوار کی وجہ سے وہاں اشیاء سستی کر دی گئی تھیں، مالز میں عید کی وجہ سے سیل لگی ہوئی تھی اور مجھے شدّت سے احساس ہو رہا تھا کہ ہمارے یہاں تہوار کے موقع پر بلکہ اس سے پہلے ہی ہر چیز مہنگی کر دی جاتی ہے۔ عید کا چاند سب نے مل کر دیکھا تھا اور بہت انجوائے کیا تھا، چونکہ وطن اور اپنوں سے دور یہ پہلی عید تھی صرف والدہ میرے ساتھ تھیں، اس لیے گھر والوں کی بہت یاد آرہی تھی اور ہم وطن بھی۔ عید کے دن وہاں کے مختلف چینلوں پر عید شو میں شریک ہوئی، انہوں نے ہمارے لیے عید کا خاص اہتمام کیا تھا۔
نوشیں رزاق (کری ایٹو منیجر، شعبہ ایڈورٹائزنگ)
یوں توعید بچپن کی ہی ہوا کرتی تھی اور فکر صرف عیدی لینے کی ہوتی تھی۔ زمانہ بدلا تو عیدی دینے والے بن گئے۔ لیکن اس کا بھی اپنا حسن ہے۔ 2010 کی ایک عید میرے لیے یادگار رہی جب میں نے اعتکاف میں دن گزارے اور پھر چاند رات پر میرے منگیتر کے گھر والوں کی جانب سے مجھے کافی تحائف بھجوائے گئے۔ میرے والدین اور بھائیوں سے ملنے والی دعائیں اور تحائف، دوستوں کے فون عید کے بعد تک چلتے رہے۔ میں نے اس عید پر گویا خود کو اللہ کی رحمتوں میں گھرا پایا۔ میرے میاں صاحب نے جو اس وقت منگیتر تھے، مجھے پھولوں کے کئی ہار پہنائے تھے۔ اور چاند رات میں درزی کے پاس کھڑے ہو کر میرا عید کا ڈریس مکمل کروایا اور عید کی صبح عیدی کے ساتھ بھجوایا۔ ماشاء اللہ آج بھی میری عید کی شاپنگ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔
عظمیٰ بلوچ (آر. جے)
ایف ایم پر بحیثیت آر جے کام کرتے ہوئے متأثرینِ سیلاب کے ساتھ عید گزارنے کا موقع ملا اور وہ عید بلا شبہ ناقابلِ فراموش ہے۔ وہ لوگ جن کا سب کچھ پانی بہا کر لے گیا ہو، ہم اُن کے لیے چھوٹی چھوٹی خوشیاں ساتھ لے کر گئے تھے۔ یہ لائیو شو تھا جس کا نام ہم نے ”میٹھی عید کی خاص خوشیاں“ رکھا تھا۔ میں اور میرے ساتھی آر جیز اپنے پروڈیوسر محمد عارف کے ہمراہ خواتین کے لیے مہندی، چوڑیاں اور بچّوں کے لیے کھلونے لے کر گئے تھے۔ بچّے گفٹ پا کر بہت خوش ہوئے۔ ہم سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے تأثرات بھی براہِ راست نشر کر رہے تھے۔ ایک خاتون بے تحاشہ روتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ میرے بھائی میرے لیے عید پر چوڑیاں اور مہندی لاتے تھے۔ یہ سن کر عارف بھائی نے چوڑیوں اور مہندی کا پیکٹ اُن کو دیا اور کہا کہ ”میں بھی تو آپ کا بھائی ہوں….“ ہماری جانب سے تسلی کے دو بول اور عملی مظاہرے نے عید کے دن اُن کے سوگوار چہروں پر خوشی کے رنگ بکھیر دیے تھے۔ اس وقت انھیں دیکھ کر دل کو جو تسکین ملی تھی وہ ناقابلِ فراموش ہے۔
شیف شائی
بچپن کی عیدیں بہت یاد آتی ہیں جب چاند رات کو اُٹھ اٹھ کر الماری سے عید کے کپڑے اور دیگر سامان نکال کر دیکھتی، گھر سے عیدی ملنے کے بعد اپنی بے شمار چھوٹی چھوٹی دوستوں کے ساتھ اُن کے گھر جا کر عیدی وصول کرتی، پھر شاپنگ اور کھلونے عید کا مزہ دوبالا کر دیتے۔ عید پر ہمارا معمول تھا کہ گھر پر عید لنچ کے بعد دادا دادی سے عید ملنے اُن کے گھر جاتے۔ وہاں فیملی عید ڈنر ہوتا۔ وہاں بھی بہت ساری عیدیاں ملتیں، سارے کزنز خوب ہلا گلا کرتے۔ بچپن کی وہ عید تو میرے لیے بہت ہی یادگار ہے جب ساراخاندان دادا کے گھر جمع تھا۔ اپنے کزنز کو مرعوب کرنے کے لیے میں دادا کے گھر کی چھت پر چڑھ گئی اور اترتے وقت سیڑھی پر پاوٗں رکھنے کے بجائے جوش میں آ کر خلا میں پاؤں رکھ دیا اور دھڑ سے نیچے گر گئی اور خوف کے مارے بے ہوش ہو گئی۔ وہ تو شکر ہے بیڈ پر گری تھی جس پر گدا بچھا ہُوا تھا۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ سب مجھے پنکھا جھل رہے ہیں۔ تایا زاد بھائی میرے لیے ٹافی اور بسکٹ لائے تھے جو میں نے نہایت شوق سے کھائے اور بہت انجوائے کیا، لیکن آئندہ ایسی مہم جوئی سے توبہ کر لی۔ اب نہ وہ عمر رہی نہ وہ بچپن رہا، نہ ہی وہ دوست جو عید کو یادگار بناتے تھے۔
قارئین!
سچ ہے کہ یادگار عیدوں میں بچپن کی عید اور اپنوں کے ساتھ گزارے گئی عید کی خوشی بھلائے نہیں بھولتی۔ آج اس ترقی یافتہ اور مشینی دور نے جہاں بہت ساری سہولیات فراہم کی ہیں وہاں انسانی جذبات و احساسات کو بھی متأثر کیا ہے۔ آج نہ تو وہ عید کارڈ اور تہنیتی پیغامات ہیں جن کو ڈاک خانے جا کر پوسٹ کرنے کے تمام مراحل بھی بہت خوش کن ہوتے تھے۔ بے شک واٹس ایپ اور فیس بک پر عید کی بے شمار مبارک بادیں مل جاتی ہیں لیکن جس طرح کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا لطف ہی اور ہوتا ہے اسی طرح اپنے ہاتھ سے عید کارڈ لکھنے اور اسے بھیجنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کی جانب سے موصول ہونے والے عید کارڈ بھی خزانے کی طرح ہوتے تھے جن کو حفاظت سے رکھنے میں جو اچھوتی خوشی ملتی تھی، اس کا کوئی مول نہیں۔