The news is by your side.

اردو کے مضمون میں‌ لیاقت اور امتحان میں قابلِ ذکر کام یابی مشکل کیوں؟

اساتذہ کی رائے اور طلبہ کے خیالات پر مشتمل رپورٹ

ہمیں ہمیشہ اس بات پر فخر رہا ہے کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے، لیکن یہ تلخ حقیقت بھی ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے کہ 75 برس بعد بھی قومی زبان اردو کو سرکاری درجہ اور قومی سطح پر اس کا مقام نہیں دیا گیا ہے۔

بقول انور شعورؔ

بار پائے کیا بھلا دربار میں

عام لوگوں کی یہ بیچاری زبان

ملک کی قومی زبان اُردو، نہیں

تادمِ تحریر سرکاری زبان

اور جو زبان سرکار کی نوازشوں سے محروم ہو عوام بھلا اُسے قابلِ توجہ سمجھے گی؟ عہدِ حاضر کے طالبِ علموں کا المیہ یہ ہے کہ اُردو زبان سے بے رغبتی اور بے نیازی اُنھیں ورثے میں ملی ہے، سو وہ اس ورثے کو بھرپور تحفظ دے رہے ہیں۔ سرکاری مدارس میں ذریعۂ تعلیم اُردو ہونے کے باوجود وہاں کے بچّے بھی اُردو سے اتنے ہی نالاں نظر آتے ہیں جتنے انگریزی ناموں کے بڑے غیر سرکاری مدارس کے بچّے۔

یہی سبب ہے کہ اردو کے مضمون کو ہمیشہ غیر اہم سمجھا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ شانِ بے نیازی سے کہہ دیتے ہیں کہ اردو تو اپنی زبان ہے، اس کی کیا تیاری کرنا، اسے کیا پڑھنا؟ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پڑھے بغیر بھی اس میں کام یاب ہو سکتے ہیں۔ جو ذہین طالب علم ہیں وہ تو بغیر تیاری کے صرف کمرۂ جماعت کی پڑھائی کی بنیاد پر کام یابی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن کیا اس کام یابی سے وہ لیاقت بھی اُن کے حصّے میں آجائے گی جو اردو زبان و ادب کا حق ہے؟

اردو کے مضمون سے متعلق طلبہ کی اسی سوچ کے پیشِ نظر ہم نے چند قابل اساتذہ اور طالب علموں سے یہ دریافت کیا کہ کیا اردو کے مضمون کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے اور اس کے پرچے کی تیاری کیے بغیر قابلِ داد کام یابی اور لیاقت کا حصول ممکن ہے؟

 ڈاکٹر یونس حسنی (ماہرِ تعلیم، محقّق، سابق چیف ایڈیٹر اردو لغت بورڈ)

کسی بھی ادب میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے ادب کے پس منظر سے واقفیت اور ادبی مزاج ضروری ہے۔ محض مطالعہ ادب کی تفہیم کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں عام خیال ہے کہ اردو قومی زبان ہے، بول چال میں آتی ہے، روزمرہ کے استعمال میں ہے اور لازمی مضمون ہونے کی حیثیت سے ہائی اسکول تک سب ہی نے پڑھی ہے، اس لیے اگلے درجات میں اُردو کو پڑھے بغیر ہی اس میں کام یابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پڑھے بغیر کسی لیاقت کا اصول اردو میں ممکن نہیں ہے اور کامیابی حاصل کرنا بھی انتہائی دشوار۔ یہ محض خام خیالی ہے یا ہمارے نظامِ تعلیم کی خرابی ہے کہ یہ جاہلانہ نقطۂ نظر معاشرے خصوصاً طالب علموں میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ زبان و ادب میں کام یابی کے لیے مطالعے کے علاوہ املا، انشاء اور خط کی درستی ایسے عناصر ہیں جو دوسرے مضامین میں قابلِ لحاظ نہیں ہوتے۔ البتہ اُردو میں کام یابی و ناکامی میں ان کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس لیے ہمہ گیر مطالعے اور محنت کے بغیر ادب میں نہ لیاقت حاصل کی جا سکتی ہے نہ کام یابی ممکن ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان( استاد، کالم نگار )

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ محض قومی زبان ہونے کی وجہ سے کسی کو اردو میں بھرپور کام یابی نہیں مل سکتی۔ جب تک اردو کے مضمون کو تفصیل سے نہیں پڑھیں گے۔ اردو کا پانچ سو سال تک پھیلا ہوا وسیع ادب امیر خسرو سے لے کر آج تک جہاں تک ممکن ہو نہیں پڑھیں گے اور اردو کی گرائمر کو نہیں پڑھیں گے تو نہ امتحان میں اچھے نمبر حاصل کر سکتے ہیں، نہ اردو میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ قومی زبان ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اردو کے نصاب پر بھی اچھی گرفت ہو، اس کے لیے نصاب کے مطابق پڑھنا پڑے گا اور اگر مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نصاب سے آگے جا کر اس کو پڑھنا پڑے گا اور لکھنے کی مشق کرنی پڑے گی۔

پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ (صدر شعبۂ اردو سراج الدّولہ گورنمنٹ ڈگری کالج۔ معتمد عمومی بزمِ اساتذہ سندھ)

انٹر سے ماسٹر تک اردو کا پرچہ بغیر ادبی فہم کے اچھی لیاقت کے ساتھ پاس کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے یہاں امتحان ایک مخصوص تکنیک کے فنی اعتبار سے مخصوص دائرے میں لیا جاتا ہے۔ مخصوص سوالات اور پھر مخصوص انداز سے ان کے جوابات بچّوں کو یاد کرائے جاتے ہیں یا شرح اور مختلف حل شدہ پرچہ جات جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں انھوں نے ایک خاص نمونہ پرچوں کو حل کرنے کا بنا دیا، لیکن ایک اچھا اردو ادب کا طالبِ علم اس وقت تک پوری لیاقت سے پرچے کو حل نہیں کر سکے گا جب تک کہ اس نے اردو زبان و ادب کو سمجھ کے اس کی تفہیم نہ کی ہو۔ اس سلسلے میں جہاں ذمہ داری طلباء و طالبات پر عائد ہوتی ہے وہیں اس کی ایک بڑی ذمہ داری اساتذۂ کرام پر بھی ہے کہ وہ اپنی تدریس کو جدید تقاضوں سے اس طرح ہم آہنگ کریں کہ آج کا طالب علم اردو ادب کی نہ صرف اہمیت کو سمجھے بلکہ قومی زبان کے ثمرات کو سمجھتے ہوئے اس کی تہذیب و تمدن کے پس منظر کو جانتے ہوئے اردو کے پرچے کو صرف ایک امتحانی پرچہ نہ سمجھے بلکہ اس کو ذوق و شوق کے ساتھ حل کرے اور اس کے اندر اپنی لیاقت خاص طور پر اپنی تخلیقی صلاحیتو ں کا بھرپور استعمال کرے۔ آج کل زیادہ تر طالب علم رٹے ہوئے مخصوص انداز کے جواب تیّار کر کے امتحان تو پاس کر لیتے ہیں لیکن ان میں وہ لیاقت پیدا نہیں ہوتی جو ادب کے طالبِ علم میں ہونی چاہیے۔

رئیس فاطمہ (ایسوسی ایٹ پروفیسر، کالم نگار)

قومی زبان رابطے کی زبان ہے۔ اس میں بات چیت کرتے ہیں لیکن امتحان دینے کے لیے یہ سمجھنا چاہیے کہ دیگر مضامین کی طرح اردو کا پرچہ بھی سو نمبر کا آئے گا۔ پینتس سال پڑھانے کے بعد یہ بات میرے علم میں بار بار آئی ہے کہ طالب علم اردو پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اپنی زبان ہے بول لیں گے تو لکھ بھی لیں گے، لیکن ادب میں اور زبان بولنے میں بنیادی فرق ہے۔ طالب علم جو پرچہ حل کرتے ہیں وہ ادب کا کرتے ہیں، صرف زبان کا نہیں ہوتا۔ اب یہ رجحان ذرا ہٹا ہے اور کوچنگ سینٹروں میں بھی اردو پڑھائی جاتی ہے۔ طلباء آتے ہیں، ٹیوشن بھی لیتے ہیں۔ کیونکہ انھیں بہت اچھی طرح سمجھ آگیا ہے کہ یہ زبان، زبان نہیں ہے صرف۔ اردو ادب ہے۔ اس کے لیے ادب کو پڑھنا پڑے گا جب ہی پرچہ صحیح ہو گا۔ اسی طرح بعض طلباء کے ستّر نمبر آجاتے ہیں، اسّی نمبر بھی ہم نے دیے ہیں۔ بعض کے 30 اور 35 آتے ہیں۔ کیونکہ وہ توجہ نہیں دیتے۔ زبان کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور اچھے نمبر لانے کے لیے زبان اور ادب کو براہِ راست پڑھنا پڑے گا بالکل اسی طرح جیسے دوسرے مضامین کی تیاری کی جاتی ہے۔

پروفیسر صفدر علی انشاءؔ

مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ اگر کسی کو اردو کا پروفیسر یا لیکچرار سنتے ہیں، عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہر طرح کی اردو پڑھ لیتا ہوگا، لکھ لیتا ہو گا۔ ایک عام تأثر ذہن میں ابھرتا ہے کہ آسان ترین مضمون ہے اس لیے شاید اردو میں ماسٹر کیا ہو گا، تو یہ سوچ ہے ہماری۔ طلباء کے ذہن میں بھی یہی چیز موجود ہوتی ہے۔ جن کے گھروں میں توجہ کم دی جاتی ہے اس پر کہ اردو ادب ایک الگ چیز ہے۔ اس میں کئی کتابیں پڑھنا پڑتی ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں‌ کہ ان کو اچھی اردو پڑھنا آتی ہے۔ اردو کے ٹیچر ہیں۔ اس سوچ کے حامل لوگوں کے بچّوں کی اس مضمون سے متعلق کوئی تربیت نہیں ہو پاتی اور امتحان کی تیاری میں وہ سب سے کم توجہ اردو کے پرچے پر دیتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اچھے نمبر نہیں آتے۔ اردو سے متعلق اگر یہ سوچ پروان چڑھائی جائے کہ یہ ہماری قومی زبان ہے اور ہمیں اچھی طرح لکھنا پڑھنا آنی چاہیے تو اردو کا پرچہ اور بھی زیادہ آسان ہو جائے گا۔ یہ بات طالب علموں کے ذہن میں ڈالی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر عظمیٰ فرمان (صدر شعبۂ اردو، جامعہ کراچی)

جو بچّے یہ سمجھتے ہیں کہ اردو ہماری زبان ہے، اس لیے ہم تیاری کیے بغیر امتحان دے کر اچھے نمبروں سے پاس ہو سکتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اردو تو کیا کسی بھی مضمون میں تیاری کے بغیر امتحان میں بیٹھنا حماقت ہے۔ زبان و ادب کے پرچے میں تیاری محض درسی کتاب یا کلاس میں نہیں ہوتی۔ آپ کا مطالعہ لیاقت بڑھاتا ہے اور امتحان کے لیے تیار کرتا ہے۔

ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبرؔ (استادشعبۂ اردو، جامعہ کراچی، شاعرہ)

بے شک اردو ہماری قومی زبان ہے مگر ہر زبان کی طرح اس کے بھی دو حصّے ہیں۔ ایک بول چال کی زبان اور ایک علمی، ادبی اور تخلیقی زبان۔ عموماً بچے تو کیا بڑے بھی اس مغالطے کا شکار رہتے ہیں کہ جب اردو بولنی اور لکھنی آتی ہے تو اردو بطور مضمون پڑھنا بھی آسان ہوگا بلکہ پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔مگر جب امتحان میں بیٹھتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس فرق کو سمجھتے ہوئے امتحان کی دیگر مضامین کی طرح اہمیت کو سمجھ کر پوری تیاری کرنی چاہیے، تبھی کسی میں وہ لیاقت پیدا ہو سکتی ہے جس سے امتحان میں اچھے نمبروں سے کام یابی حاصل کر سکے۔

تسلیم فاطمہ (معلّمہ)

ہماری بدنصیبی کہیے کہ آج کے اس دور میں لوگ اُردو زبان میں گفتگو کرنے والے کو ناقص العقل اور اس کی تعلیم حاصل کرنے کو وقت برباد کرنا کہتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ قومی زبان کی تعلیم حاصل کرنا بھی کوئی عقل مندی ہے، بلکہ اسے پڑھے بغیر امتحان دینا اور کام یاب ہونا ہی ہماری لیاقت کا ثبوت ہے۔ علم چاہے کوئی بھی ہو، تعلیم چاہے کیسی بھی ہو مکمل ذکاوت و لیاقت اور محنت سے حاصل کرنی چاہیے، جہاں تک بات اردو کی ہے تو بغیر لیاقت کے آپ اس میں ثانوی کام یابی بھی حاصل نہیں کر سکتے۔

فہد کیانی (طالب علم)

تیاری کے بغیر تو قسمت ہوتی ہے کہ اچھا پرچہ کر لیں اور ہمارے یہاں اردو اتنی اچھی ہے نہیں، بولی نہیں جاتی یا اہمیت نہیں دی جاتی تو تیاری کے بغیر کام یاب ہونا اور لیاقت کے ساتھ کام یابی حاصل کرنا تو بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ بڑی کلاسوں میں غزلیں، نظمیں، افسانے وغیرہ پڑھنا، اور امتحان میں ان پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا تیاری کے بغیر ممکن نہیں۔

ثناء رئیس (طالبہ)

جب تک کسی زبان میں مہارت نہ ہو، نہ وہ معیاری انداز سے بولی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس میں‌ اچھا لکھا جاسکتا ہے۔ آج کل کے طالب علموں کی اردو سے عدم دل چسپی ایک مسئلہ ہے۔ اور اردو زبان سے یہ دوری گھر کے ماحول کی وجہ سے ہوتی ہے۔ میرے والدین نے بچپن ہی سے اردو بولنے اور لکھنے پر توجہ دی۔مجھے کم عمری ہی سے بچوں کی کہانیاں اور رسائل پڑھنے کو دیے جاتے تھے۔میری مطالعے کی اس عادت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے متبادل الفاظ معلوم ہیں، لہٰذا اُردو کے پرچے میں نوٹس کے علاوہ باآسانی اپنے الفاظ میں جواب لکھ کر بہت اچھے نمبر حاصل کر لیتی ہوں۔ لیاقت تو بعد کی بات ہے، بغیر تیاری کے اردو کے پرچے میں پاس ہونا بھی ممکن نہیں۔

قارئین، بلاشبہ اس بنیاد پر کوئی بھی اُردو کے پرچے میں کام یابی حاصل نہیں کرسکتا کہ یہ قومی زبان ہے۔ اردو زبان و ادب کا شوق بچپن ہی سے پروان چڑھایا جائے تو بچّے اردو کے مضمون اور اس کے پرچے کی تیاری میں دل چسپی بھی لیں گے۔ جس روز ملک بھر میں‌ اردو زبان یکساں طور پر رائج ہوجائے گی اُسی روز ہمارے طالب علموں کی سوچ میں بھی تبدیلی آجائے گی اور وہ اردو کے مضمون میں بھی اتنی ہی دل چسپی لیں گے جتنی دیگر مضامین میں لیتے ہیں۔ اس خیال سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیں گے کہ اردو پڑھے بغیر بھی اس کا امتحان لیاقت کے ساتھ پاس کیا جاسکتا ہے۔ بس ایک قدم اٹھانے کی دیر ہے اردو کو اس کا جائز مقام خود بخود مل جائے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں