The news is by your side.

ایشیا کپ مقابلےورلڈکپ سے زیادہ دل چسپ اور سنسنی خیز کیوں؟

ایشیا کپ کبھی کبھی شائقین اور ماہرین دونوں کے لیے حیرانی کا باعث بن جاتا ہے کیوں کہ اس ایونٹ کے بعض مقابلے ورلڈ کپ سے زیادہ دل چسپ اور سنسنی خیز ثابت ہوتے ہیں۔ اس ایونٹ میں جن ممالک کی ٹیمیں مدمقابل آتی ہیں، ان کے مابین سیاسی تنازع اور سفارتی سطح پر تناؤ کا اثر کھیل پر بھی نظر آتا ہے۔ یہ ٹیمیں میچ جیتنے کے لیے جان لڑا دیتی ہیں اور شائقین اس مقابلے کا بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مقابلوں کو کسی بھی کرکٹ ایونٹ کی روح کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا، کیوں کہ اس میں شائقین اور کرکٹ کے ماہر بھی بہت زیادہ جذباتی اور پُرجوش نظر آتے ہیں۔ اکثر سابق کرکٹر میچ کے دوران تبصرہ اور کھیل سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے غیرجانب دار نہیں‌ رہ پاتے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت پچھلے 76 سال سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں‌ مگر سیاست سے لے کر کھیل کے میدان تک عوام اور شائقین کے سوچنے کا انداز بہت مختلف ہے۔ دونوں ممالک کی ثقافت اور عوام کا طرز و معیارِ زندگی بھی تقریباً یکساں ہے، لیکن ان میں سیاسی اور سفارتی سطح پر تناؤ اور سرحدی تنازعات کرکٹ میں مسابقت کو اس حد تک بڑھا دیتے ہیں‌ کہ میچ کے موقع پر شائقین کے لیے اس مقابلے سے بڑی خبر کوئی نہیں ہوتی۔ کرکٹ میچوں میں ان ٹیموں کی مسابقت اس عروج پر پہنچ جاتی ہے کہ اسٹیڈیم پر میدانِ جنگ کا گمان ہونے لگتا ہے۔

ماضی میں بنگلہ دیش میں ہونے والے ایشیا کپ کے میچ کے آخری لمحات میں شاہد خان آفریدی نے ایشون کی گیند پر جو چھکا لگایا تھا وہ آج بھی شائقین کے لیے سنسنی خیز لمحہ ہے۔ یہاں تک کہ اس میچ کے ان لمحات کو ایک بھارتی فلم میں بھی شامل کیا گیا۔ کوہلی کی یادگار اننگز بھی مداحوں کو مدتوں یاد رہے گی جب انھوں نے پچھلے سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے مقابلے میں ورلڈ کلاس پاکستانی بولنگ اٹیک کے خلاف محض تین اوورز میں 47 رنز بنا کر بھارتیوں کو خوشیاں منانے کا موقع دیا تھا۔

ہاردک پانڈیا سے لے کر روہت شرما تک اعتراف کرچکے ہیں کہ پاک بھارت میچ میں دباؤ دوسرے میچز سے زیادہ ہوتا ہے جب کہ پاکستانی کرکٹر بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان ٹیموں کے مابین مقابلے کھلاڑیوں‌ کے لیے کس قدر اعصاب شکن اور ایک بڑا امتحان ثابت ہوتے ہیں۔

اس بار ایشیا کپ میں ان روایتی حریفوں کے درمیان دو ستمبر کو ہونے والا میچ یوں تو بے نتیجہ رہا مگر اس میں پاکستانی پیس بیٹری نے انڈین بیٹنگ کے پرخچے اڑا دیے تھے۔ شاہین شاہ آفریدی بھارتی بیٹرز کے لیے کافی عرصے سے خوف کی علامت ہیں اور انھوں نے اس میچ میں بھی اپنی یہ روش برقرار رکھتے ہوئے 4 ٹاپ بیٹرز روہت شرما، ویرات کوہلی، ہارڈک پانڈیا اور جڈیجا کو بری طرح اپنی گھومتی ہوئی گیندوں کے ذریعے جکڑا۔

ڈگ آؤٹ میں بیٹھی انڈین ٹیم اس وقت شدید پریشانی کا شکار تھی جب صرف 66 رنز پر اس کے چار کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے۔ تاہم لیفٹ ہینڈر بیٹر ایشان اور آل راؤنڈر پانڈیا پاکستانی اسپنرز پر حاوی ہوگئے اور دونوں نے پانچویں وکٹ کے لیے ایک سو اڑتیس رنز بنا کر پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ پھر حارث رؤف اور شاہین نے نصف سینچری بنانے والے دنوں بیٹرز ایشان 82 اور پانڈیا 87 کو شکار کر لیا۔ اس میچ میں نہ صرف شاہین بلکہ حارث اور نسیم شاہ نے بھی عمدہ بولنگ کے ذریعے بھارت کا ناک میں دم کیے رکھا، بالخصوص نسیم کو کھیلنے میں ہندوستانی بیٹرز پریشان دکھائی دیے۔ میچ سے قبل بھارت کے سینئر کرکٹرز اور ماہرینِ کھیل نے پاکستانی ٹیم کے جس ٹرائیکا کی نشان دہی کی تھی، بھارتی کھلاڑی اس کے وار نہ سہہ سکے۔ اب امکان ہے کہ بھارت اور پاکستان 10 ستمبر کو پھر ایک دوسرے کا حوصلہ آزمائیں گے۔

ایشین راک اسٹار ٹیمیں ویسے تو پاکستان، سری لنکا اور بھارت ہیں مگر اب کسی بھی میچ میں افغان اور بنگلہ دیشی ٹیموں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دونوں ٹیمیں کئی بار جیت کے قریب آکر محض اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئی ہیں۔

اگر پاکستان اور افغانستان کی ٹیموں کی بات کی جائے تو یہ دونوں ٹیمیں بھی اکثر میچوں کو اس نہج پر لے آتی ہیں کہ شائقین کی سانسیں رک جاتی ہیں، چاہے وہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کھیلا گیا ایشیا کپ کا وہ میچ ہو جسے نسیم شاہ نے دو چھکے لگا کر یادگار بنایا تھا، یا پھر حالیہ پاک افغان سیریز کا دوسرا مقابلہ۔ دوسرے سنسنی خیز ون ڈے کے آخری اوور میں شاداب خان کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کی جیت کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے تھے مگر اس بار پھر نسیم نے آخری اوور میں دو چوکے لگا کر پاکستان کو یادگار فتح دلائی۔

بنگلہ دیش کی ٹیم بھی پاکستان اور انڈیا سے ہار آسانی سے قبول نہیں کرتی اور ان دونوں ٹیموں کے خلاف اپنی بساط سے بڑھ کر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یوں تو بنگلہ دیشی ٹیم نے کرکٹ کے میدان میں ایشیا کی ان بڑی ٹیموں کو کبھی اتنا زیادہ پریشان نہیں کیا مگر کئی میچز ایسے ہیں جن میں بنگلہ دیشی ٹیم جیت کے قریب آکر شکست کو گلے لگا بیٹھی اور تجربے کی کمی کے باعث ان دو بڑی ٹیموں کو نہیں ہرا پائی۔ بنگال ٹائیگرز کی کرکٹ کے میدانوں میں پاکستان اور بھارت سے جیتنے کی شدید خواہش کے باعث ان کے درمیان ہونے والے اکثر مقابلے دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

دوسری طرف ایک دوسرے سے مسابقت میں بنگلہ دیش اور افغان کی ٹیمیں بھی کم نہیں۔ چونکہ دونوں ہی دنیائے کرکٹ میں نام بنانے کے لیے کوشاں ہیں اس لیے آپس میں کھیلتے ہوئے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دونوں ٹیموں میں ورلڈ کلاس اسپنرز کی موجودگی بھی ان کے مقابلے کا توازن برقرار رکھتی ہے اور میچ سے قبل کسی کے بارے میں یہ پیش گوئی نہیں کی جاسکی کہ یہ ٹیم آج جیت جائے گی۔

سری لنکا کی ٹیم بھی اس خطّے میں اپنی حریف ٹیموں سے نہیں ہارنا چاہتی۔ اس کا رویہ بھی بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف میچوں کے دوران جارحانہ ہوتا ہے اور کھلاڑی کافی جذباتی ہوتے ہیں۔ جب بات ورلڈ یا ایشیائی سپر ایونٹ کی ہو تو پھر سری لنکن پلیئرز کا رنگ ہی اور ہوتا ہے۔ بالخصوص سری لنکن اور انڈین شائقین اپنی ٹیموں کے درمیان ہونے والے میچز سے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں جب کہ ماضی کے مقابلے میں اب آئی لینڈرز کافی جوش و جذبے سے بھارت کا مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، نوجوان کھلاڑی انھیں میدان میں چت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔

آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی کے بعد ایشیا کپ دنیائے کرکٹ کا تیسرا بڑا ایونٹ ہے جس میں بڑی تعداد میں ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ اس بار بھی چھ سائیڈز اس ایونٹ میں ٹرافی کے لیے پنجہ آزمائی کررہی ہیں جس میں پاکستان، سری لنکا، بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال کی ٹیمیں شامل ہیں جب کہ سری لنکا دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے اعزاز کا دفاع کرنے کی کوشش کرے گا۔

ایشیا کپ 2023 فارمیٹ میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایشیائی حریف کم از کم دو بار تو ایک دوسرے کے خلاف پنجہ آزمائی کرسکیں، یعنی گروپ اسٹیج کے بعد بھی آگے بڑھنے والی ٹیم کو سپر فور میں اپنے گروپ کی ایک ٹیم سے مقابلہ کرنے کا موقع ملے گا، جس کا اصل مقصد پاکستان اور بھارت کے میچز کا زیادہ ہونا ہے تاکہ ٹی وی ریٹنگز سے لے منافع تک سب زیادہ سے زیادہ آئے۔

ایشیا کپ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس کا آغاز 1984 میں ہوا تھا جس کے بعد سے اب تک اس ایونٹ کا 15 مرتبہ انعقاد ہوچکا ہے۔ پاکستان کو آخری بار منعقد ہونے والے ایشیا کپ کے فائنل میں آئی لینڈرز کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ پچھلی بار بھارت مضبوط ہونے کے باجود سپر فور مرحلے سے ہی باہر ہوگیا تھا جو کہ اس کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔

سب سے زیادہ سات بار بھارتی ٹیم نے اس ٹرافی کو اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پچھلے سال ایشیا کپ کو چھٹی بار جیتنے کا اعزاز سری لنکا کے حصے میں آیا تھا، گرین شرٹس اب تک صرف 2 بار ایشیائی کرکٹ کی سلطانی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

یہ بات شائقین کے لیے نہایت حیران کن ہوگی اور دلچسپ بھی کہ ایشیا کپ کی تقریباً 30 سالوں کی تاریخ میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف فائنل میں برسرپیکار ہوں۔ اس بار ایسا ہونے کی قوی امید ہے جس کا سابق پاکستانی اور بھارتی کرکٹر بھی اظہار کرچکے ہیں۔

ایشین کرکٹ کونسل نے اپنی تجوری میں ڈالرز بھرنے کے لیے اس بات کی مکمل منصوبہ بندی کی ہے کہ کم از کم دو بار تو لازمی پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں آپس میں کھیلیں (اگر نیپال نے بھارت یا پاکستان کو ہرا کر اپ سیٹ کردیا جس کے امکانات بہت کم ہیں تو اور بات ہے)، پھر سب سے بڑھ کر روایتی حریفوں کے درمیان فائنل میچ ہوتا ہے تو یہ شائقین کے لیے تو یادگار لمحہ ہو گا ہی مگر اے سی سی کے لیے بھی ایکسٹرا بونس ہوگا اور اشتہارات، براڈ کاسٹ اور دیگر مدات میں اس کی خوب آمدنی ہوگی۔

ایشیائی ٹیموں کا کرکٹ کے لیے جذبہ شاید زیادہ ہے یا یہاں کے لوگوں میں جذباتیت بہت زیادہ ہے جو میچوں کے موقع پر نظر آتی ہے اور ایسے ایونٹس کو خاص بناتی ہے۔ پاک بھارت میچ کی تو بات ہی کچھ اور ہے، مگر پاک افغان میچ یا پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے میچ بھی شائقین کے جذبات کی وجہ سے خاص بن جاتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں