The news is by your side.

تین بڑی وجوہات جن کے سبب پاکستان ورلڈکپ میں مشکلات کا شکار ہوا

ورلڈ کپ کی شروعات تو پاکستان کرکٹ ٹیم نے جیت کے ساتھ کی تھی مگر گرین شرٹس کی گاڑی پٹری سے اتر گئی اور اب ٹیم جدوجہد کرتی نظر آرہی ہے۔ قومی ٹیم کو اپنے آخری دونوں میچز میں بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت کے سامنے پاکستان کی بیٹنگ بری طرح فلاپ ہوئی اور اسے 7 وکٹوں سے ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔

آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی بولرز کا برا حال ہوا اور 366 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے قومی ٹیم کو 62 رنز سے ہزیمت اٹھانا پڑی۔

آئی سی سی کے حالیہ ایونٹ میں جو پہلی وجہ گرین شرٹس کے لیے سب سے زیادہ مشکل کا باعث بن رہی ہے وہ بڑے ناموں کا پرفارم نہ کرنا ہے۔ کپتان بابر اعظم اب تک ناکام نظر آتے ہیں اور انھوں نے چار میچز میں صرف ایک نصف سنچری بنائی اور بھارت کے خلاف وہ کافی دباؤ کا شکار بھی نظر آئے۔

آل راؤنڈر شاداب خان کی پرفارمنس بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے وہ عالمی کپ میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ انھوں نے بیٹنگ اور بولنگ دنوں شعبوں میں شائقین کرکٹ کو مایوس کیا ہے۔

فخر زمان ایک اور ایسے کھلاڑی ہیں جنھیں بڑے ایونٹ اور میچ کا پلیئر کہا جاتا تھا مگر ان کا بیٹ نہ صرف ایشیا کپ سے خاموش ہے بلکہ ورلڈ کپ کے میچز میں بھی وہ کچھ نہیں کر پائے۔ امام الحق نے بھی اپنی ڈاٹ بالز کھیلنے کی عادت کے باعث ٹیم کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔

دوسری وجہ پاکستان کا بہت زیادہ محمد رضوان پر انحصار کرنا ہے کہ وہ مڈل میں آکر ٹیم کی ڈوبتی ناؤ سنبھال لیں گے مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ وکٹ کیپر بیٹر کی پرفارمنس میں تسلسل تو ہے مگر ان کے سلو کھیلنے کی عادت کبھی کبھی ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔

وہ اب تک ٹورنامنٹ کے لیڈنگ رن اسکورر ہیں اور انھوں نے 93.39 کی اوسط سے 294 رنز اسکور کیے ہیں۔ عبداللہ شفیق رضوان کا ساتھ نبھاتے نظر آئے ہیں اور انھوں نے بھی مجموعی طور پر 197 رنز اسکور کیے ہیں۔

تاہم پاکستان کے دیگر بیٹرز کو بھی آئی سی سی ورلڈ کپ میں ذمہ داری کے ساتھ بہتر پرفارم کرنا پڑیگا صرف ایک یا دو بیٹرز پر بھروسہ کرنے سے بات فتح تک نہیں پہنچے گی۔ اگر آئی سی سی ایونٹ کی ٹاپ فور ٹیموں میں پاکستان کو جگہ بنانا ہے تو پھر تمام بیٹرز کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

تیسرا مسئلہ جو پاکستان کرکٹ ٹیم کی پہچان کے مترادف ہے وہ خراب فیلڈنگ اور اہم مواقع پر کیچز ڈراپ کرنا ہے۔ قومی کرکٹرز کی اس سنگین عادت کی وجہ سے اکثر و بیشتر آئی سی سی ایونٹس کے میچز میں ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آسٹریلیا کے خلاف شاہین شاہ آفریدی پانچ وکٹیں لینے میں تو کامیاب رہے مگر اس سے پہلے ان کی گیند پر اسامہ میر نے ڈیوڈ وارنر کا کیچ چھوڑ دیا جب وہ صفر پر کھیل رہے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے 163 رنز بنا کر ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

بھات کے خلاف بھی ٹیم کی فیلڈنگ اچھی نہیں تھی جبکہ سری لنکا کے خلاف میچ میں امام الحق نے کوشل مینڈس کا کیچ ڈراپ کیا تھا جس کے بعد انھوں نے بھی سنچری اسکور کی تھی۔

پچھلے سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل کو پاکستانی شائقین کیسے بھول سکتے ہیں، جب حسن علی نے شاہین کی بالنگ پر ہی میتھیو ویڈ کا آسان کیچ ڈراپ کیا تھا اور پاکستان کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کو اس آئی سی سی ایونٹ میں اپنی پرفارمنس سے کوئی چھاپ چھوڑنی ہے تو اسے مذکورہ بالا تینوں شعبوں میں بہتری لانی ہوگی خاص طور پر بڑے ناموں کو پرفارم کرنا پڑے گا۔

ورلڈکپ کے آغاز سے قبل بڑے ناموں سے بہت امیدیں لگائی گئی تھیں مگر عالمی کپ میں اب تک زیادہ تر پلیئرز چلے ہوئے کارتوس ثابت ہوئے ہیں۔ ایک سابق کرکٹر کے بقول ٹیم کے لیے کھیلنے سے زیادہ کھلاڑی اپنے لیے کھیلتے نظر آرہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے عالمی کپ میں کم بیک کا موقع اب بھی موجود ہے اور وہ شائقین کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہیں بشرطے کہ خلوص نیت سے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کریں‌۔ پلیئرز بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں ایسی عام غلطیاں نہ دہرائیں جو وہ بارہا کرچکے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں