The news is by your side.

پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ‘دشمن ملک’ میں شان دار استقبال…

پاکستان کی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کا معرکہ سَر کرنے کے لیے ‘دشمن ملک’ میں قدم رنجا فرما چکی ہے! جی ہاں ،چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی نے کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کرکے بھارت میں موجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں‌کے لیے کچھ مشکل ضرور پیدا کردی ہے۔

وہ انڈین میڈیا جو حیدرآباد دکن کے راجیو گاندھی ایئرپورٹ پر پاکستانی کھلاڑیوں کے گرم جوشی سے استقبال کی خبروں سے بھرا ہوا تھا، اب وہاں یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ اگر ہم ‘دشمن ملک’ ہیں تو ہم نے ان کھلاڑیوں کا اس طرح‌ والہانہ انداز میں استقبال کیوں کیا۔ شائقین کرکٹ کی بہت بڑی تعداد حیدر آباد دکن میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے موجود تھی جو گزشتہ دنوں آئی سی سی ورلڈ کپ کے لیے وہاں ایئر پورٹ پر اترے تھے ۔ لوگ بابر بھائی، شاہین بھائی کے نعرے لگا رہے تھے، سیکیورٹی اہلکار بھی مسکرا کر ان سے باتیں کررہے تھے۔

اس کے اگلے دن اچانک ذکا اشرف صاحب نے پاکستانی میڈیا سے گفتگو کی اور اس موقع پر کھلاڑیوں کے ساتھ سینٹرل کنٹریکٹ کے تاریخی معاہدے کا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے روانی میں یا سوچ سمجھ کر یہ کہہ دیا کہ کھلاڑی دشمن ملک گئے ہیں اس لیے انھیں خوش کرنا تھا۔ ذکا اشرف نے کہا کہ ہم نے پیار اور محبت سے کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ دیے ہیں۔ میرا خیال ہے پاکستان کی تاریخ میں کبھی اتنے پیسے نہیں ملے جتنے میں نے ان کو دیے ہیں۔

بقول ذکا اشرف صاحب ’میرا مقصد ایک ہی تھا کہ ہمارے جتنے پلیئرز ہیں مورال ان کا اَپ ہونا چاہیے جب یہ کسی دشمن ملک میں یا کسی جگہ بھی کھیلنے جائیں جہاں مقابلہ ہو رہا ہے تو وہ اچھی پرفارمنس دیں۔‘

دوسری طرف پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور محمد رضوان جیسے پلیئرز بھارت میں اپنے پُرجوش استقبال پر سوشل میڈیا کے ذریعے مداحوں‌ کو جواب دے رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بابر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارتی شہر حیدر آباد میں ملنے والی محبت اور سپورٹ سے متاثر ہوا ہوں۔ شاہین شاہ آفریدی نے لکھا کہ بھارت میں اب تک ہمارا بہترین استقبال ہوا۔ وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان نے کہا کہ ہر چیز بہت اچھی رہی، بھارت میں اگلے ڈیڑھ ماہ کے منتظر ہیں۔

سوشل میڈیا پر پاکستانی ٹیم کے بھارت میں‌ استقبال کی جو ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں اس میں واضح ہے کہ پڑوسی ملک میں انھیں خاصا احترام اور پیار دیا جا رہا ہے جب کہ ہوٹل میں بھی گرین شرٹس کے لیے شاندار انتظامات کیے گئے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ورلڈ کپ 2023 کے لیے پاکستانی کھلاڑی دورۂ بھارت میں اپنے مداحوں میں مزید اضافہ کر کے لوٹیں گے۔

پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ کھیل اور سیاست کو الگ رکھنا چاہیے۔ ایسے میں ذکا اشرف کی جانب سے بغیر سوچے سمجھے بھارت کو ‘دشمن ملک’ کہنا، یقیناً ایک نامناسب بات ہے جس نے ہماری ٹیم کے لیے بھارت میں‌ خوش گوار ماحول کو متاثر کیا ہے۔ (ہم جانتے ہیں‌ کہ بھارت ہمارے ملک کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے اور پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں‌ دیتا، لیکن اس موقع پر ایسا بیان کسی سیاست دان کا تو ہوسکتا تھا، پی سی بی کے سربراہ کا نہیں۔) بھارت کے نیوٹرل کرکٹ اینالسٹ وکرانت گپتا بھی ان کی اس بات سے بہت خفا نظر آتے ہیں اور اسے سیاست کے پیرائے میں تولتے ہوئے ذکا اشرف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی بالخصوص پاکستانی شائقین ذکا اشرف کے اس بیان پر ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔ شائقینِ کرکٹ نے ان کے بیان کو ‘غیر ضروری’ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا بیان بھارت میں موجود پاکستانی ٹیم پر بھی دباؤ بڑھانے کا باعث بنے گا۔ وہ کھلاڑی جو بھارت میں اپنے والہانہ اور غیر متوقع استقبال پر خوشگوار حیرت میں مبتلا تھے، اب اپنے ملک کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے بیان کے بعد پریشر کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کے عوام اب پاکستانی ٹیم کے میچوں کے دوران جارحانہ رویہ اختیار کریں اور انھیں بالکل سپورٹ نہ کریں۔ حیدر آباد میں جس طرح لوگ جمع ہوئے اس سے صاف لگ رہا تھا کہ بھارت میں‌ بڑی تعداد پاکستانی کھلاڑیوں‌ کی مداح ہے۔ تاہم اب یہ بھارتی شائقین پر منحصر ہے کہ وہ پاکستانی پلیئرز کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ بھارتی شائقین ذکا اشرف کے اس بیان کو نظرانداز کرتے ہوئے کرکٹ کے میدان میں‌ صرف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو داد دیں گے۔

دوسری طرف تادمِ تحریر بھارتی حکام کی جانب سے پاکستانی شائقین کے لیے ویزوں کا اجرا نہیں کیا گیا۔ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباسی جیلانی بھی کہہ چکے کہ پاکستانی شائقین کرکٹ کو ورلڈ کپ 2023 کے لیے ویزے جاری نہ ہونے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے بات کریں گے۔ آئی سی سی کے قوانین کے مطابق یہ لازمی ہے کہ پاکستانی شائقین کرکٹ کو ویزوں کا اجراء یقینی بنایا جائے۔ کیا ذکا اشرف کے متنازع بیان کے بعد ‘دشمن ملک’ پاکستانی شائقین کو ویزے جارے کرے گا یا اس بیان کو ویزے نہ دینے کا جواز بنائے گا۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کرکٹ بورڈز کے چیئرمین کا عہدہ کسی خوش نصیب شخص کو ہی ملتا ہے۔ وہ خاصا بااختیار بھی ہوتا ہے اور تمام کھلاڑیوں‌ کی قسمت کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی صوابدید پر منٹوں میں کسی کو ٹیم کا کپتان بنا سکتا ہے تو کسی کو اس اعزاز سے محروم کرسکتا ہے۔ کرکٹ کے عالمی ایونٹس کے میچوں میں اسے بطور مہمانِ خصوصی بلایا جاتا ہے اور زبردست پروٹوکول دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی اسے طنز نہ سمجھے تو ہم چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف کو ایک مشورہ دینا چاہتے ہیں۔ ذکا اشرف کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد یہ بیان جاری کردیں‌ کہ ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے، کیوں کہ اگر بھارتی بورڈ انھیں میچز دیکھنے کے لیے مدعو کرتا ہے تو وہ کس منہ سے ‘دشمن ملک’ جائیں گے!

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں