اسلام میں تعلیم کی اہمیت سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی کے ان ابتدائی کلمات سے واضح ہو جاتی ہے، ” اپنے رب کے نام سے پڑھیےجس نے پیدا کیا۔“
علم کا حصول، فروغ اور ترسیل دینی تعلیمات اہم جزو ہے. قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بھی ملک کو چلانے کے لیے تین اہم ستونوں کا ذکر کرتے ہوئے تعلیم کو پہلا اور بڑا ستون قرار دیا تھا۔ بلا شبہ وہی قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں جہاں تعلیم ترجیحات میں سرِ فہرست ہو۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں جہاں ”تعلیم سب کے لیے“ کا نعرہ آج بھی محض ایک خواب ہے۔
ترقی یافتہ دور اور اس تیز رفتار صدی میں بھی شرحِ خواندگی کے اعتبار سے پاکستان بہت پیچھے ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے اور شرح خواندگی میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟ یہ جاننے کے لیے عالمی یومِ خواندگی پر ہم نے چند ممتاز ماہرینِ تعلیم سے رابطہ کیا۔ اس ضمن میں اُن کی رائے کیا ہے۔ آپ بھی پڑھیے۔
پروفیسر رافعہ عزیز
1- قبائلی اور جاگیردانہ نظام جس میں بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کی شدید مخالفت کی جاتی ہے اس میں بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔ دوسرے ہمارے معاشی حالات ہیں جس میں ایک جاہلانہ سوچ یہ کہ تعلیم پر صرف لڑکوں کا حق ہے کہ آج ان کی تعلیم پر جو خرچ کیا جائے گا، کل ان کی کمائی سے واپس مل جائے گا، لیکن لڑکیوں کی تعلیم سراسر خسارے کا سودا ہے۔ کیونکہ وہ پرایا دھن ہیں۔ ان کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا بے سود ہے۔ گو اس سوچ میں کسی حد تک کمی آئی ہے لیکن مکمل طور پر نہیں۔ حالانکہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی نہ صرف اپنا گھر اچھے طریقے سے چلا سکتی ہے بلکہ آنے والی نسل کی بہترین تربیت بھی کر سکتی ہے۔ اصل ذمہ دار منفی سوچ اور معاشی بدحالی ہے۔
2- جب تک منفی سوچ نہیں بدلے گی، معاشی حالات میں بہتری نہیں آئے گی اور خواندگی کا تناسب بھی نہیں بڑھے گا۔ علاوہ ازیں تعلیم بہت مہنگی ہو گئی ہے۔
درسی کتابوں اور رجسٹر نما کاپیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بچوں پر کتابوں اور والدین پر فیسوں، کتابوں اور اسٹیشنری کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اکثر تعلیمی اداروں میں درسی کتابیں اور کاپیاں وہیں سے لی جاتی ہیں جو بہت مہنگی ہوتی ہیں، بڑے بڑے مہنگے رجسٹر بھی سال کے آخر تک آدھے آدھے خالی ہی ہوتے ہیں۔ معاشی طور پر پریشان والدین ان حالات میں بچوں کی تعلیم سے ہاتھ کھنچ لیتے ہیں۔ معاشی بدحالی پر قابو پانے اور تعلیم سستی کرنے ہی سے شرحِ خواندگی میں اضافہ ممکن ہے۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
1- اس کی ذمہ دار انتہائی درجے کی مجرمانہ غفلت ہے۔ حکومت، لیڈر شپ، عوام یہ سب بیک وقت اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکومتوں نے اپنی ترجیحات میں تعلیم کو نہیں رکھا۔ لیڈر شپ میں تعلیم کے معاملے میں دلچسپی اور گہما گہمی کبھی نظر نہ آئی اور عوام نے اپنے مطالبات میں تعلیم کو کبھی شامل نہ کیا۔ پاکستان کے قیام سے آج تک ہمارے تعلیمی ادارے تعلیم، تدریس اور تحقیق کا کوئی کلچر نہ بنا سکے، اسی وجہ سے ناخواندگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اس کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ پاکستان میں ناخواندگی کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا ہے۔ اپنے طور پر ہم سب نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس ضمن میں ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ ہم سب فروغِ تعلیم میں فیل ہیں۔ ہاں فروغِ تعلیم کے حوالے سے اگر پاکستان کے بارے میں کچھ کہا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے ہماری حکومتیں اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرسکیں۔
2- خواندگی میں اضافے کی کیا صورت ہو سکتی ہے اس سوال کے جواب میں ہمیں اپنے آپ سے سوال پوچھنا پڑے گا کہ کیا ہم اپنے آپ کو بدلنا چاہتے ہیں؟ خواندہ اور تعلیم یافتہ کہلانا چاہتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ہمیں کچھ باتیں کرنی پڑیں گی، مثال کے طور پر مشن کے طور پر کام کرنا ہو گا اور اگر ممکن ہو تو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنی ہو گی۔ اور اس میں حکومت، پرائیوٹ سیکٹر، فلاحی ادارے، اور عوام ان سب کا اشتراک لازمی ہے۔ یہ اگر ممکن ہو سکا تب ہم تعلیم کے سلسلے میں، خواندگی بڑھانے میں کوئی مثبت پیش رفت کر سکیں گے۔
ڈاکٹر صالحہ احمد
1- مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آزادی کو 75 سال گزر گئے اور ہماری شرح خوندگی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس کا ذمہ دار کسی ایک کو قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ بہت سارے عوامل ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ہاتھ مختلف حکومتوں کا رہا ہے۔تعلیم پر ہمارے ملک میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جو پیسے ملتے ہیں اُنھیں ٹھیک طرح سے خرچ نہیں کیا جاتا جب کہ ہمیں یونیسکو بھی تعلیم کی مد میں پیسہ دیتا ہے۔ آئی ایم ایف والے بھی دیتے ہیں اور دیگر ممالک کی طرف سے تعلیم کے مد میں پیسے دیے جاتے ہیں لیکن وہ صحیح طریقے سے اور ایمانداری سے استعمال نہیں کیے جاتے۔ ایک اور چھوٹی مثال آپ کو دیتی ہوں اس ملک میں اس وقت بارہ ہزار سے زائد گھوسٹ اسکول ہیں۔ یہ اسکول عموماً گودام کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسکولوں میں حکومت کی طرف سے کسی بھی مانیٹرنگ کا انتظام نہیں ہے۔ پہلے ہر اسکول میں انسپکٹر آف اسکول جایا کرتے تھے اور کارکردگی کو دیکھا کرتے تھے، اب ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ابھی تک ہم اپنی قومی تعلیمی پالیسی پر بھی اتفاق نہیں کر سکے۔ یہاں تک کہ قومی زبان پر بھی کنفیوژن ہے۔ ان تمام عوامل نے مل کر ہمار ے ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ نہیں ہونے دیا۔
2- میرا خیال ہے سب سے پہلے عوام کے لیے آگہی کے پروگرام شروع کرنے چاہییں کیونکہ والدین خود پڑھے لکھے نہیں، ان کو تعلیم کی افادیت اور یہ بھی نہیں معلوم کہ بچے پڑھ لکھ کر کتنی ترقی کر سکتے ہیں۔ ابھی تک والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے بچے کچھ کمانے لگیں تو وہ پڑھانے سے بہت بہتر ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں کا ماحول بالکل صاف ستھرا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بچے وہاں جا کر خوشی محسوس کریں۔ اگر ہم اپنے سرکاری اسکولوں میں ہرا بھرا اور صاف ستھرا ماحول فراہم کریں اور اس میں ساری بنیادی ضروریات مہیا کریں تو بچے کا خود بخود اسکول جانے کا دل چاہے گا۔ جو ریٹائرڈ ٹیچرز ہیں یا پڑھے لکھے سینئرشہری ہیں وہ مختلف اسکولوں میں اپنے وقت کا ایک گھنٹہ رضا کارانہ طور پر دے سکتے ہیں۔ اس سے گورنمنٹ کو مدد بھی ملے گی اور بچوں کو اچھی تعلیم بھی۔ ان گھروں میں جہاں گنجائش ہے وہاں پر بچوں کو گھروں میں بھی پڑھنے لکھنے کی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ میں اپنے گھر پر ایک ادارہ پیامِ تعلیم ایجوکیشن سینٹر کے نام سے چلا رہی تھی جس میں سارے ٹیچرز والنٹیر تھے، بچوں کو کتابیں اور اسٹیشنری مفت فراہم کی جاتی تھی۔ میں نے دیکھا بچے بڑے ذوق و شوق سے بغیر کسی قسم کے دباؤکے آتے اور اپنے علم میں اضافہ کرتے کیونکہ ہم ان کو اعلیٰ تعلیم کے بارے میں آگہی دیتے تھے اور مالی مدد فراہم کرتے تھے۔ اگر ہم سب مل کر اس قسم کی کاوش کریں تو ہمارے ملک میں تعلیم میں بے حد ترقی ہو سکتی ہے۔ میں اکثر کہتی ہوں کہ اگر ایک پڑھا لکھا انسان کسی ایک فرد کو تعلیم دے دے تو ایک سال کے اندر شرحِ خواندگی ڈبل ہو سکتی ہے۔
پروفیسر شاہدہ قاضی
1- حکومت نے شروع سے ہی اس طرف توجہ نہیں دی، کیونکہ دنیا بھر میں خواندگی کا معیار ہے کہ آپ اخبار پڑھ اور خط لکھ سکتے ہیں، اگر ہم پاکستان میں یہ معیار دیکھیں تو ایک فیصد لوگ بھی اس پر پورا نہیں اترتے۔ ہم تو صرف اپنا نام لکھنے اور دستخط کرنے والے کو خواندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں داخل ہونے والے اکثر بچے دوسری، تیسری جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ غریب اور مزدور اپنے بچوں کو میٹرک تک پڑھوانا بھی بوجھ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے کو نوکری نہیں ملے گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم شارٹ کورسز کے ذریعے غریبوں اور مزدوروں کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں اور دن کے مختلف اوقات میں بچوں کو پڑھانے کا مناسب انتظام کریں جس میں خواندگی کے ساتھ ان بچوں کو فنی تعلیم بھی دینی چاہیے، کوئی کام اور ہنر سکھائیں تو وہ ان کے لیے بہتر ہو گا۔
2- ہم اعلیٰ تعلیم پر بہت خرچ کرتے ہیں، اگر یہی پیسہ ہم بنیادی تعلیم پر لگائیں تو ہمارے ملک کو فائدہ ہو گا کیونکہ یونیورسٹی میں تو کم لوگ جاتے ہیں۔ اس لیے خواندگی میں اضافے کے لیے زیادہ توجہ پرائمری تعلیم پر دینی پڑے گی اور یہ ذمہ داری حکومت کو قبول کرنا پڑے گی۔
پروفیسر سلیم مغل
1- ہرعہد کے حکمران اس کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ قوموں کی سمتیں متعین کرنا حکمرانوں کا کام ہے۔ جتنے بھی حکمران آئے سب نے زبانی جمع خرچ کیا لیکن تعلیم کو کبھی اپنی ترجیح نہ بنایا، ہمارے اربابِ اختیار میں عوامی نمائندگی کا عہد بہت کم ہے، فوجی ڈکٹیٹر آئے، زمیندارانہ نظام سے متعلقہ افراد نے حکومت سنبھالی۔ استحکام کی صورت پاکستان میں کبھی نہیں رہی۔ زیادہ تر کرائسز کا دور رہا۔ ایسے میں حکومتیں اپنی بقا کی جنگ لڑیں یا تعلیم کے فروغ کے لیے کام کریں۔ کرپشن کا کردار بھی بہت اہم ہے جو سرکاری شعبوں میں بری طرح داخل ہوئی۔ دیگر امور کے ساتھ یہ بھی بہت بڑی رکاوٹ بنی۔
2- جب تک تعلیم حکومت کی اوّلین ترجیح نہیں بنتی ملک میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ممکن نہیں۔ پہلی ترجیح کی گواہی آنی چاہیے بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم سے اور میڈیا سے۔ این جی اوز بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن بد قسمتی سے ان میں بھی کرپشن داخل ہو چکی ہے۔ میں مایوس نہیں اس میں تبدیلی آئے گی اور یہ تبدیلی دنیا کے بدلتے نظام سے آئے گی جو کسی ان پڑھ کو قبول نہیں کرے گا۔ اب سسٹم پڑھنے اور پڑھانے پر مجبور کردے گا۔ آنے والے وقت میں بقا کا مسئلہ عام لوگوں کو پڑھنے پڑھانے پر مجبور کر دے گا۔
ڈاکٹر ہما بقائی
2- میں سمجھتی ہوں اس کی ذمہ دار پاکستانی ریاست ہے۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں جو فیصلے ہوئے اس کے بعد عوام کی ترقی فوکس نہیں رہا اس لیے جو پیسہ تعلیم کے لیے مختص کیا جاتا تھا وہ شرم ناک حد تک کم تھا جب کہ پاکستان سے بھی چھوٹی اور کمزور ریاستوں میں تعلیم کے لیے زیادہ رقم مختص کی جاتی تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جو پیسہ تعلیم کے لیے تھا وہ نہ پورے طور سے خرچ ہوتا نہ صحیح طور پر۔ تعلیمی اداروں کو سیاسی اکھاڑا بنایا، اساتذہ کو معاشرے میں کم حیثیت اور کم رتبہ کر دیا گیا تو پھر تعلیم کیسے فروغ پاتی؟ تعلیم ہماری ریاست کا فیصلہ کرنے والوں کے لیے نہ کبھی اہم تھی نہ اہم ہے۔
2- ہمارے یہاں بہت سارے اچھے تعلیمی ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں آگئے۔ یہ کافی نہیں ہے لیکن یہ اس بات کی امید ضرور ہے کہ پاکستان میں اچھے تعلیمی ادارے بنائے اور چلائے جا سکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اگر اچھی تعلیم کو صرف پرائیویٹ سیکٹر محدود کر دیں تو تعلیم حق نہیں بنتا میراث بن جاتی ہے اور وہ بھی امیر کی۔ جب کہ تعلیم ہر انسان کا حق ہے۔ اگر ہمیں واقعی شرحِ خواندگی بڑھانا ہے اور پاکستان کے مستقبل کو واقعی روشن دیکھنا ہے تو ہمیں جنگی بنیادوں پر اپنے پبلک سیکٹر ایجوکیشن کو جہاں عام آدمی کا بچہ پڑھتا ہے صحیح کرنا پڑے گا۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جامعات کے بجائے پرائمری کی سطح سے تعلیم کا معیار بلند کریں۔ کل پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ گھاس کھائیں گے، مگر بم بنائیں گے۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کچھ بھی کریں گے اپنے بچوں کو پڑھائیں گے۔ اپنے آنے والے کل کو سڑکوں پر بھیک مانگتے اور نشہ کرتے دیکھ کر ہمارے آپ کے رونگٹے کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟ پڑھا لکھا پنجاب، پڑھا لکھا سندھ کے نعروں سے کام نہیں چلے گا اس سے بہت زیادہ کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔
سہیلہ خرم
1- حکومتی پالیسی، سیاسی اختلافات، سفارش، وڈیرا کلچر، زمین داری کلچر اور اس کے ساتھ ہی کچھ ایسی تعلیمی پالیسیز پر عمل نہ کرنا جو خواندگی میں مؤثر اضافے کے لیے کار آمد تھیں، مثلاً محمد خان جونیجو کی نئی روشنی اسکول کی پالیسی جو بہت اچھی تھی۔لیکن باقی آنے والی حکومتوں نے اس کا تسلسل برقرار نہیں رکھا اور اس کو ناکارہ کر دیا۔ان عوامل نے شرحِ خواندگی کو بڑھنے نہ دیا۔ ایک بڑا سبب لڑکیوں کو تعلیم اور اعلیٰ تعلیم نہ دلانا بھی ہے، اچھے اچھے خاندانوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی سب ہے جس نے شرحِ خواندگی میں اضافہ نہ ہونے دیا۔
2- چھوٹے چھوٹے دن رات کے مختلف اوقات میں اسکول بنا کر لوگوں کو بتانا چاہیے کہ ایجوکیشن کتنی ضروری ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں جتنی ترقی ہوئی ہے اس کا سبب وہاں کے نصاب کا ان کی زبان میں ہونا ہے۔ اربابِ اختیار کو تعلیم کے لیے ایسی پالیسیز بنانی چاہئیں جس میں اپنے مفادات سے زیادہ عوام النّاس کا فائدہ اور فروغِ تعلیم کی اہمیت ہو۔
قارئین، ستمبر 1947 ء میں قائدِ اعظم نے قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا تھا ”تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیمی میدان میں مطلوبہ پیش رفت کے بغیر ہم قوموں کی صف میں باوقار مقام حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔“
خواندگی کا دن عالمی سطح پر 1964ء منایا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی 8 ستمبر کو اس مناسبت سے کانفرنسیں، سیمینار اور سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں اور تنظیموں کے تحت پروگرام منعقد کیےجاتے ہیں، لیکن حکومتی اداروں کی بات کی جائے تو یہ آج بھی زبانی جمع خرچ تک محدود نظر آتے ہیں. اس کی بڑی وجہ ہمارے حکمران اور وہ مخصوص ذہینت رکھنے والا طبقہ ہے جن کی ترجیحات میں عام آدمی کی تعلیم اور ملک میں شرحِ خواندگی میں اضافہ شامل ہی نہیں رہا۔ اس ضمن میں اگر نیک نیتی سے مؤثر کاوشیں کی جائیں تو ہم شرحِ خواندگی کو بلندی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔