کرکٹ کی سمجھ بوجھ سے عاری اور اس کھیل میں بالکل بھی دل چسپی نہ رکھنے والے میرے ایک شناسا نے عجیب سوال کیا. کیا کرکٹ کا فائنل میچ ایسا ہوتا ہے؟ پہلے تو میں اس کا منہ دیکھتا رہا، پھر سوچا، کہہ دوں ہاں! جب طاقتور کی طرف سے من مانیاں کی جاتی ہیں تو پھر فائنل ایسا ہی ہوتا ہے۔
بی سی سی آئی اپنی تمام تر رعونت کے ساتھ ایشیا کپ کا فائنل جیت گیا، جی ہاں بھارت کی جگہ بی سی سی آئی ہی ایشیا کپ کا فاتح ٹھہرا ہے۔ بھارتی بورڈ کے اعزازی سیکریٹری جے شاہ نے پہلے تو ایونٹ کے انعقاد میں جو تماشا کھڑا کیا اور برسات کے شدید موسم میں سری لنکا کو میزبانی سونپی یہ اپنی جگہ طاقت کے زور پر من مانی کی بدترین مثال ٹھہری۔
پہلی فتح بھارت (بی سی سی آئی) کو یوں ملی کہ پاکستان کے میزبان ہونے کے باجود اس کے حصے میں صرف چار میچ آئے جب کہ سری لنکا کو 9 میچز کی میزبانی سونپی گئی۔ پاکستان کی جانب سے پیش کئے گئے ہائبرڈ ماڈل کو تو طوعاً و کرہاً قبول کر لیا گیا مگر جے شاہ نے نجم سیٹھی کی یہ بات بالکل نہیں مانی کہ اس موسم میں سری لنکا کے بجائے متحدہ عرب امارات میں ٹورنامنٹ کرایا جائے۔
ایشین کرکٹ کونسل کے سربراہ جے شاہ نے یہاں بھی فتح کو گلے لگاتے ہوئے یو اے ای کو مسترد کر کے سری لنکا کے برساتی ماحول کو ترجیح دی۔ پاکستان اور بھارت کے میچز جس میں شائقین کا ایک سمندر گراؤنڈ کے باہر تک ہوتا ہے، یہاں روایتی حریفوں کے درمیاں ہونے والے دونوں میچز میں تقریباً آدھا گراؤنڈ خالی پڑا رہا۔ اس کا سبب بھی یقیناً جے شاہ تھے جنھوں نے سری لنکا کو ترجیح دی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے دونوں ہائی پروفائل میچز کے دوران بارش ہوئی، ایک میچ تو مکمل برسات کی نذر ہوگیا جب کہ دوسرا میچ ریزرو ڈے کی وجہ سے مکمل ہو پایا جس نے گراؤنڈ میں موجود اور ٹی وی کے سامنے بیٹھے شائقین کو سخت اذیت میں مبتلا کیا۔ روایتی حریفوں کے درمیان دوسرے مقابلے میں میچ اتنی بار رکا کہ صرف میچ میں بھارتی ٹیم کا مومنٹیم ہی برقرار رہا اور پاکستان کچھ نہ کر پایا۔
شاید بی سی سی آئی نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ سری لنکا میں تو میچز کے دوران لازمی بارش ہونی ہے اور اگر ہم گرین شرٹس سے میچ ہار بھی گئے تو یہ کہنا آسان ہوگا کہ بارش کی وجہ سے بھارتی ٹیم پرفارم نہیں کرپائی۔ ورلڈ کپ سر پر ہونے کی وجہ سے یقیناً بھارتی بورڈ پاکستان کے خلاف ہار کو افورڈ نہیں کر پاتا۔
بات اگر پریماداسا اسٹیڈیم میں ہونے والے ایشیا کپ 2023 کے فائنل کی کریں تو سری لنکا کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر ایسی ہزیمت اٹھانا پڑی جو شاید ہی کسی ٹیم کے حصے میں آئی ہو۔ تاریخ میں کوئی ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ اور بڑے ایونٹ کے فائنل میں کبھی اتنی شرمناک شکست سے دوچار نہیں ہوئی۔
کولمبو میں ٹاس جیت کر سری لنکن کپتان دسن شناکا نے جب فائنل میں پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی وقت آئی لینڈرز کی شکست کے آثار واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔ تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو کس کرکٹر کو پسند ہو گا کہ برسات کے موسم میں جب ہوائیں بھی چل رہی ہوتی ہیں اور گیند الگ ہی طرح سے سوئنگ کر رہا ہوتا ہے تو وہ بیٹنگ کے لیے جائے؟ تاہم سری لنکا نے انوکھا فیصلہ کرتے ہوئے پہلے بلّے بازی کا غیر دانش مندانہ فیصلہ کیا۔
ایشیا کپ کا فائنل تاریخ کا مختصر ترین فائنل ثابت ہوا جس میں بھارتی بولنگ کے آگے سری لنکن بیٹرز خشک پتوں کی طرح بکھرتے رہے، مگر باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو شاید آپ محسوس کریں کہ سری لنکن بیٹر جس طرح کیچ آؤٹ ہوئے ایسا گمان ہو رہا تھا کہ وہ فیلڈنگ سائیڈ کو کیچ پریکٹس کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کسی بھی ٹیم کی اگر میچ کے آغاز میں ہی تین یا چار وکٹیں گر جائیں تو وہ ون ڈے میں بھی ٹیسٹ کی طرز اپناتے ہوئے سلو کھیلنے لگتی ہے۔ کریز پر موجود بیٹرز رنز بنانے کے لیے کوئی بھی خطرہ مول لینے سے گریز کرتے ہیں۔ صرف آسان بالز پر ہی رنز بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور 15، 20 اوورز میں رنز بنانے سے زیادہ وکٹ بچانے پر توجہ دی جاتی ہے۔
شاید سری لنکن بیٹرز فائنل میں اس کے بالکل الٹ تہیہ کر کے آئے تھے اور انھوں نے اننگز بلڈ اپ کرنے کے بجائے غیرذمہ داری سے شاٹ مار کر آؤٹ ہونا بہترسمجھا۔
بھاتی بولرز سراج، بمراہ اور ہاردک نے اچھی بولنگ کی لیکن اگر اس بولنگ کو واضح پیس، بھرپور سوئنگ، ریورس سوئنگ یا باؤنس کے ترازو میں تولا جائے تو کسی بھی طرح بھارتی بولنگ اتنی مہلک نہیں تھی کہ سری لنکا کی پوری ٹیم مل کر اس کے آگے صرف نصف سنچری ہی مکمل کر پائے وہ بھی اپنے ہوم گراؤنڈ پر!
جس پچ پر تمام سری لنکن بیٹرز 50 رنز بنا پائے اسی پچ پر بھارت نے بغیر وکٹ کھوئے ہی ہدف پورا کر لیا جب کہ اسے بیٹنگ کے دوران کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ جہاں سری لنکن بیٹرز کے لیے ایک چوکا لگانا مشکل ہو رہا تھا وہاں بھارتی بیٹر ایشان اور گل نے نہایت آسانی سے چوکے لگائے۔
بھارتی میڈیا اور ان کے سابق کرکٹر نے بھی اپنی ٹیم کی بولنگ کی خوب تعریف کی، سنیل گواسکر نے تو یہاں تک کہا کہ لوگ پاکستانی بولنگ اٹیک کی بات کرتے ہیں مگر ہمیں بھارتی بولنگ اٹیک کی بات کرنی چاہیے کیوں کہ ہمارے پاس محمد سراج، جسپریت بمراہ اور ہارد پانڈیا سمیت بہترین اسپنرز موجود ہیں۔
یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ اگر ایشیا کپ فائنل میں بھارتی بولرز نے اتنی ہی خطرناک بولنگ کی تو کسی بھی عالمی سطح کے کرکٹ کمنٹیٹر یا سابق کرکٹرز (بھارت اور پاکستان کو چھوڑ کر) نے بھارتی بولنگ کی کیوں تعریف نہیں کی۔ آسٹریلیا، انگلینڈ جنوبی افریقا یا نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سابق کرکٹر نے بھارتی بولنگ کے لیے کوئی تعریفی جملہ ادا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ خود سری لنکن کرکٹ تجزیہ کاروں اور سابق کرکٹرز نے اس حوالے سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
بات بس شاید اتنی سی ہے کہ ہر جگہ طاقتور اپنی منواتے ہیں، چاہے وہ کرکٹ کا کھیل ہو، سیاسی بساط ہو یا پھر میدانِ جنگ! چلتی اسی کی ہے جس کا زور ہوتا ہے۔ بھارتی بورڈ بھی ہمیشہ سے آئی سی سی اور اے سی سی کے معاملات میں اپنی من مانیاں کرتا رہا ہے اور اس نے حالیہ ایشیا کپ میں بھی اپنی دولت اور طاقت کے زور پر اپنی ہر بات منوائی ہے۔ دیکھیں اب بھارت میں منعقد ہونے والے آئندہ آئی سی سی ورلڈکپ میں بی سی سی آئی کس طرح اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی کرکٹ ٹیم کے لیے ورلڈ کپ جیتنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔