The news is by your side.

نیا سوشل کنٹریکٹ ،وقت کی ضرورت

تحریر: راﺅ محمد خالد

یونان کی کی ہزاروں سال کی تاریخ میں ایک “ننگا بادشاہ” تھا لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں “ننگے باد شاہوں” کا میوزیکل چیئر جاری ہے جمہوریت کے نام پر”ننگے بادشاہوں” کے پورے پورے خاندان نسل در نسل پاکستان اور پاکستانی عوام پر مسلط ہیں ۔اقتدار مافیا نے اپنی بزنس ایمپائر کھڑی کرنے کے لیے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔سامراجی فارمولا”لڑاﺅاور حکومت کرو” کے تحت اس اقتدار مافیانے قوم کو نسلی ،لسانی ،علاقائی اور مذہبی فرقہ و ارانہ بنیادیوں پر تقسیم کیا ہوا ہے ۔

قدرت نے پاکستان کو بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے پاکستان اسلامی دنیاکی پہلی اور دنیا بھر کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے پاکستان آباد ی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جس میں نو جوانوں کی اکثریت ہے دنیا بھر میں پاکستان کا نہری نظام پہلے نمبر پر ہے اور گندم، کپاس اور چاول کی پیدا وار عالمی سطح پر نمایاں ہے نمک ،کوئلہ ،تیل و گیس کی وسیع قدرتی ذخائر موجود ہیں۔پاکستان کے”ننگے بادشاہوں” نے ملک و قوم کو انرجی کرائسز ،معاشی بحران اور دہشت گردی کے سنگین مسائل میں الجھایا ہوا ہےپاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا ہے اور پارلیمنٹ نے نظریہ ضرورت کو اپنایا ہوا ہے چار ٹر آف ڈیمو کریسی کے تحت مسلم لیگ (ن)اور PPPآپس میں تعاون کر رہی ہے اور زرداری صاحب نوازشریف حکومت کو سہارا دے رہےہیں چار ٹر آف ڈیمو کریسی انٹر نیشنل فور سز نے اپنے مفادات کے لیے کرایا ہےآج سیاسی پنڈتو ں کی محفلوں میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پنجاب میں نواز شریف کا متبادل کون ہو گا ؟؟؟؟؟؟؟؟PPPاگلے بیس، پچیس سال میں بھی پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور PPPسمٹ کر سیاسی طور پر اندرون سندھ تک محدود ہو گئی ہےاسلام آباد دھرنوں نے ملکی سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اب تبدیلی آ کر رہے گی چاہے کچھ وقت لگے اب بات نہیں رکے گی طاہر القادری صاحب کو پنجاب میں پڑھی لکھی مڈل کلاس اور عمران خان کو ایلیٹ کلاس بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اینٹی جہادی عنصر کے طور پر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو ملکی و بین الاقوامی ادارے بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں جب کہ پاکستان میں طالبائزیشن کے خلاف سب سے مضبوط آواز متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم )کے قائد الطاف حسین نے بلند کی ہے ایم کیو ایم پاکستان کے فنانشل ہب کراچی کا 85فیصد مینڈیٹ رکھنے والی لبرل اور سیکولر جماعت ہے جس کی لیڈر شپ کا تعلق لوئر اور مڈل کلاس سے ہے حالیہ دنوں میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کو طالبان کی جانب سے دھمکیاں دی جار ہی ہے جس کا پاکستان کے پالیسی میکروں اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری ،امریکہ کے صدر بارک اوباما برطانیہ کے حکام ،سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو سخت نوٹس لینا چاہیے ۔ ملکی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ تبدیلی کی بات کرنے والی قوتوں کی پوزیشن یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی پاکستان عوامی تحریک بہت کمزور ہے اور عمران خان خیبر پختون خواہ میں طالبان خان اور پنجاب میں لبرل خان بنا ہوا ہے ایم کیو ایم سندھ سے باہر پنجاب، خیبرپختون خواہ ،پلوچستان ،آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان میں تنظیمی نیٹ ورک کیساتھ موجود ہے اور آزاد کشمیر اسمبلی اورگلگت بلتستان میں ایم کیو ایم کے منتخب نمائندے بھی موجود ہے پاکستان کے پالیسی میکروں کو چاہیے کہ وہ تبدیلی کی فورس کے طور پر ایم کیو ایم کو سنجیدگی سے لیں پاکستان میں اٹھارہ سے بیس فیصد مذہبی سخت گیر طبقہ کے نمائندوں مولانا سمیع الحق ،مولانا فضل الرحمن ، حافظ سعید ،ساجد میر اور قاضی حسین احمد مرحوم نے ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا اورمعاشرے کو یرغمال بنانے کی کوشش کی اور شیعہ سنی فسادات کرائے اور آج فرقہ واریت کے نام پر قتل پر پولیس ،بیورو کریسی خود کو بری الزمہ قرار دیدیتی ہے پاکستان میں سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پالیسی میکر ز اور تبدیلی کی فورسز کو ورکنگ ریلیشن شپ بنانی چاہیے ۔پاکستان کی بقاءسلامتی، استحکام اور انٹر نیشنل کمیونٹی میںبا وقار مقام دلوانے کے لیے نیا سوشل کنٹریکٹ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ فرسودہ نظام ملک کو درپیش سنگین مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے ،جمہوری نظام میں بلدیاتی ادارے بنیاد کی طرح ہوتے ہےں اور پاکستان میں جمہوریت کے نام نہاد چیمپین بلدیاتی الیکشن نہیں کرتے آج پاکستان کا جمہوری نظام بغیر بنیادوں کے کھڑا ہے ۔بلدیاتی الیکشن فوری کروائے جانے چاہیے پولیس میں اصلاحات کی جائیں اداروں کو ری اسٹکچر کیا جانا ضروری ہے لینڈ ریفارم ہونی چاہیے پاکستان زرعی ملک ہے اور زراعت کی بہتری اور کسانوں کی خوشحالی کے لیے عملی اقدامات کیے جانے چاہیے۔ ملک میں نئے انتظامی یونٹس وقت کی ضرورت ہے اس لیے نیا شوشل کنٹریکٹ ہونا چاہیے اور اسے عملی شکل دینے کے لیے کام کا آغاز پوری لگن خلوصِ نیت اور دل جمعی سے کیا جانا چاہیے۔ اور یہ Over Nightممکن نہیں ہے اس کے لیے پالیسیوں میں تسلسل ضروری ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں