تحریر : م ش خ
قارئین گرامی گذشتہ کئی ماہ سے آپ کو ٹی وی چینلز پر صحافی ، سیاست دان تجزیہ نگار وریٹائر سی ایس ایس افسران غرض اس شعبے سے وابستہ افراد جو سیاست پر تکیہ رکھے لیٹے ہیں اور ان کے اپنے خیالات ہیں، کچھ اپوزیشن کے ساتھ ہیں اپوزیشن تو اب ختم ہو ئی اب تو صرف عمران خان ، شیخ رشید اور طاہرالقادری میدان میں رہ گئے ہیں وہی اب اپوزیشن کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں دکھ تو اس بات کا ہوتا ہے کہ ایک اخبار نویس کو ایمانداری سے اپنے قلم کی سیاسی کو استعمال کرنا چاہئے گذشتہ دنوں سنیئر جرنلسٹ مجیب الرحمن شامی ایک ٹی وی چینل پر فرما رہے تھے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو عوام نے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے اب دھرنے کیوں ہور ہے ہیں یہ تو عوام پوچھیں جناب مجیب الرحمن آپ نے اس بات پر روشنی نہیں ڈالی کہ پارلیمنٹ میں آنے سے قبل جب وزیر اعظم الیکشن کے مراحل میں تھے تو انہوں نے اپنی تقاریر میں کچھ چھوٹے چھوٹے وعدے عوام سے کئے تھے، جو غالباً آپ نے بھی سنے ہونگے انہوں نے کہاتھا کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو لوڈشیڈنگ ختم کرینگے مہنگائی کو جڑسے ختم کرینگے لٹیروں کی دولت پاکستان واپس لائیںگے اور اس کے وعلاوہ بے شمار وعدے میاں صاحب اقتدار میں آگئے اور تمام وعدے کچرہ کنڈی کی نظر ہوگئے۔
ظاہر ہے توپھر دھرنے ہی ہونے تھے۔صحافی کے بھی پرستار ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے اداکاروں کے مگر جب قارئین دیکھتے ہیں کہ جو پسندیدہ کالم نگار ان کا تھاوہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے تو قارئین مایوس ہوجاتے ہیں ایٹمی سائنس دان ڈاکٹرقدیر خان نے گذشتہ دنوں بیان دیا کہ دھرنا دینے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ مانگنا کونسا طریقہ ہے وہ بھی صرف 15ہزار لوگوں کے ساتھ انہوں نے عمران خان اور طاہر القادری کو تنقید کا نشانہ بنایا ہم تو محترم قدیر خان سے مو¿دبانہ گزارش کرتے ہیں کہ لوگ ان سے پیروں کی طرح محبت کرتے ہیں اور وہ اپنی سیاسی جماعت بھی صرف اس لیے ختم کر چکے ہیں کہ ان جیسے اصول پسند شخص کاکام سیاست میں نہیں جب وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ ایمانداری کی سیاست ان کے بس کاکام نہیں تو ان سے گزارش ہے کہ وہ عوام کے دلوں میںا پنی محبت کے چراغ روشن رکھیں کیونکہ پاکستان میں سیاست شفاف نہیں ہے۔
سیاست کی باتیں تو قارئین گرامی ایسی ہوتی ہیں کہ اب تو رو کے ہنسنے کو دل چاہتا ہے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی فرماتے ہیں کہ ملک چلانا آسان نہیں حکومت میں ہوتا تو اقتدار عمران کے حوالے کر دیتا آپ تو اقتدار میں نہیں مگر گزشتہ دنوں آپ کے صاحبزادے کے اسکواڈ نے ایک نوجوان کی جان لے لی اور اگر آپ اقتدار میں ہوتے تو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر عمران خان کو دے دیتے کالم طویل ہوجائے گا، لہٰذا قارئین خود سمجھ دار ہیں، پی پی پی کے قمرالزمان کائرہ ٹی وی پر بیٹھے فرما رہے تھے،جمہوریت عوام کے مسائل جب ہی حل کر سکتی ہے جب اسے مستحکم ہونے دیا جائے ۔
سن دو ہزار آٹھ سے لیکر 2013تک آپ تمام لوگ جمہوریت کے گھوڑے پر سوار تھے اب اس جمہوریت میں کیا کیا اقدامات کیے گئے یہ تو آپ کو معلوم ہوگا یا پھر عوام کو ہم تو سورہے تھے اب آنکھ کھلی ہے تو مہنگائی کو ساتویں آسمان پرے جاکر آپ کی جمہوریت نے چھوڑا5سال بھی اگر کوئی جمہوریت عوام کے مسائل حل نہ کر سکی تو اب صرف یہ بیانات ہی لگتے ہیں اور عوام بھی سمجھ چکی ہے اس لیے وہ تبدیلی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اب یہ ان کی قسمت ہے کہ تبدیلی ہوتی ہے یا نہیں ادھر پی پی پی کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ کراچی سے لیکر خیبر تک دھاندلی ہوئی پھر بھی خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ یہ جمہوریت کے لئے وزیر اعظم کا ساتھ دیں گے یہ نہیں بات یہ نہیں بات یہ ہے کہ اب کے باری ہماری ہے ، میاں صاحب 2008ءکے بعد آپ آرام کریں۔
عوام ٹی وی چینلز پرراائے دیتے ہیں جن میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے گیاوہ زمانہ جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے آج کا نوجوان حقیقت کی دنیا میں آکر جاگ گیا ہے وہ ان سیاست دانوں کی باتوں پر قہقہے لگا رہا ہے اور سیاستدان قائل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر ان کے دلائل اتنے کمزور ہیں کہ لوگ ان کی بات سننے کو تیار نہیں اعتزاز احسن ، رضا ربانی،مولانا فضل الرحمن ، حاجی عدیل ، مشاہد حسین کہتے ہیں کہ کراچی سے لیکر خیبر تک دھاندلی ہوئی ہے توپھر ہمارے قا رئینکاایک سوال ہے کہ آپ پھر اس نام نہاد قومی اسمبلی کاساتھ کیوں دے رہے ہیں،کونسی جمہوریت کا ساتھ دے رہے اس لیے اب سیاست دانوں کے بیانات پر قوم خوب انجوائے کرتی ہے اور اب الیکشن جب بھی ہوںگے ان پرانے شکاریوںکے جال ٹوٹیں گے اور نئے ہمت والے آئیں گے ۔
جمہوریت کے چوکیدار کہتے ہیں قوم دھرنوں کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ سے مشکل میں ہے جناب ایک شکل میں تو قوم1990ءسے ہے اور اس فلسفے پر معاملات چل رہے ہیں کہ اب تیری باری اور اگلی میری باری ہوسکتا ہے کہ قوم کے لیے باری باری آخری باری ہو جو ستر سال کا تھا وہ بھی ملتان سے الیکشن لڑ کر رہا گیا آج بھی پارلیمنٹ اس کے نوجوانوں کی منتظر ہے دھیک کی طرح اور جوک کی طرح چیک گئے ہیں، یہ بوڑھے سیاست دان اب نوجوانوں کی باری ہے اور وہی ہی اس پاکستان میں تبدیلی لائیںگے کہ آج کا نوجوان کمپیوٹر بیٹھاہے اس میں کسان اور مزدور کا بیٹا بھی شامل ہے جبکہ یہ ویاش تو آج سے پندرہ سال قبل ان سیاست دانوں کی اولادیں کیا کرتی تھیں، اب تو غریب کا بچہ پھٹے لباس میں بے حال ہو کر جیسے تیسے کرکے تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اپنی قابلیت کی بنا پر ان سیاست دانوں کے بچوں کے مقابل کھڑا ہے اب وہ غریب کا بچہ نظام تبدیل کرےگا، اب سیاست دان نظام تبدیل نہیں کریں گے ۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ملک مسائل کی آگ میں جھلس رہا ہے مگر اس ملک میں حقیقی اپوزیشن نہیں ہے جبھی تو سب من مانی کے گروے پر سوار ہیںسارا نظام تبدل ہو کر رہ گیا ہے سب جمہوریت کی گھٹیا ناکارہ اور کرپشن سے ٹھوی نیکچر شدہ گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں کہ شاید یہ چل پڑے مگر اس محسوس ہوتا ہے کہ ساری کہانی اپنے انجام کو پہنچے داں ہے اور مڈٹرم الیکشن ہی اب اس ملک کا حل ہیں قادمین گرامی ہم اس قبل چار سال میں کوئی مرتبہ اپنے کالم میں لکھ چکے ہیں کہ اگر اس ملک کو انار کی کلی سے نکالنا ہے تو جمعہ کی چھٹی بھال کردیں نواز شریف آپ بھی سن لیں آپ نے بھاری مڈیٹ 97میں لیا آتے ہی جمعہ کی چھٹی ختم کی اس کے بعد آپکی چھٹی ہو گی اور لمبی چھٹی ہوئی پھر بڑی مشکوں سے 2008ءکے الیکشن میں اپوزیشن کے روپ میں آئے کارکردگی مفررہی پھر 2013ءکے الیکشن میں آپ اور آپ کے رفقاکی جمہوریت صرف14ماہ جونسی چوس سکی آج پھر آپ اور آپ کے رفقا روڈ پر ہیں ۔
اگر آپ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو ضد چھوڑ دیں اور جمعہ کی چھٹی بحال کردیں ، تاکہ لوگ گھروں سے نکل کر عزت و تکریم سے اور اطمینان سے نماز جمعہ ادا کریں، اور اگر آپ نے جمعہ کی چھٹی بحال نہیں کی تو ان کی مشکلات میںآپ کی کتنی مچکوے کھاتے رہی گی اور اگر آپ نے بحال کردی تو رب العزت کا۔ ARYویب پر ایک احسان ہوگا کہ اس نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔