The news is by your side.

اور اب “تھر” کھپے

بے شک الله رازق ہے مگر الله انسانوں کو آزمانے کےلئے کبھی اقتدار کی نعمت اور کبھی مال کی کثرت سے نوازتا ہے یقین جانئے جب بھی انسان پر مشکل آتی ہے تو اس دوران الله ہمارے صبر اور دوسروں کے ظرف کو آزما رہا ہوتا ہے الله ہمیں دکھاتا ہے کہ کون ہمارا اپنا ہے اورکون غیر ہے۔

الله کا قرآن پاک میں فرمان ہے

“یقیناً تنگی کے ساتھ آسائش ہے”

[94:7]

میری زندگی کا اصول ہے جب بھی میں پریشان ہوتا ہوں تو اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھتا ہوں اور حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے قول کو پڑھتا ہوں اس سے میری مشکل آسان ہو جاتی ہے یا مجھے تسلی ضرور مل جاتی ہے بیشک دکھوں کا مداوا صرف الله ہی کر سکتا

جب الله ہمیں مال سے نوازتا ہے تو اس مال میں غریب اور مسکین کا حصہ ہوتا ہے آج بھی بہت سے مال دار لوگ ضرورت مند کا خیال رکھتے ہیں مگر اکثریت میں وہ ہیں جو دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے الٹا ان کی بے کسی اور غربت کا مذاق اڑاتے ہیں

اس بے ہسی کی حالیہ مثال سندھ کے علاقے تھر میں دیکھنے کو ملی جہاں غذائی قلت سے نہ جانے کتنی ماؤں کے لخت جگر ان سے جدا ہو گئے مگر انتظامیہ خواب غفلت میں رہی جب میڈیا کے بیحد شور پر ان کی آنکھیں کھلیں تو فرمانے لگے میڈیا جھوٹ بول رہا ہے مرنے والے تو محض چند سو افراد ہیں – حالانکہ ہر صاحب عقل جانتا ہے ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کیوں کے تھر کے دور دراز کے علاقوں میں میڈیا کی رسائی ممکن نہیں

حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اسلامی سلطنت آج کے پاکستان سے بہت بڑی تھی مگر اس کے باوجود آپ فرماتے ہیں اگر میرے دور حکومت میں فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا حساب روز محشر عمر سے لیا جاۓ گا اور یہاں مرنے والا کوئی جانور نہیں الله کے بندے ہیں- تو کیا ان اموات کا حساب وقت کے حاکم سے نہیں لیا جاۓ گا ؟

جہاں قحط زدہ تھر میں پہلے گندا پانی پھر زائدالمیاد دوائیں اور اب گندم کے بجاے مٹی بھیجی گئی – اہل اقتدار سے انتہائی ادب سے اتنی گزارش ہے جناب اتنی اموات کے بعد جب امداد بھیجی تو مٹی ہی ملی تھی ؟؟؟

.مٹی بھیجنے کی تکلیف آپ نے کیوں کی؟ مٹی تو پہلے ہی تھر میں بہت ہے اگر مٹی کھا کر زندہ رہا جا سکتا تو ہم آپ جیسوں کے آگے اپنے بچوں کی لاشیں لے کر اپنی بے بسی کا رونا کیوں روتے

اس مٹی سے تو بہتر تھا آپ 292 بوریاں زہر کی بھیج دیتے جو پورے تھر کے باسیوں کے لئے کافی ہو جاتیں- نہ کوئی مانگنے والا رہتا اور نہ آپ کو دینے کی نوبت آتی- آپ بھی اگلے الیکشن میں سینہ تا ن کر کہتے “تھر کا مسئلہ ہم نے محض 292 بوریوں سے حل کیا ہے لہذا تھر کھپے کھپے کھپے”۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں