The news is by your side.

”سب اچھاہے“

قارئین گرامی آج سے 15سال قبل عوام کامیڈی حضرات کا بہت ریگارڈ کرتے تھے اور کامےڈی حضرات بھی مختلف طبقوں میں بٹے ہوتے تھے ،اب نہ وہ کامیڈین رہے اور نہ وہ عوام اب تو صبح جب اخبارات دیکھتے ہیں تو بے شمار کامیڈی سیاست دان آپ کو مختلف زاویوں سے اپنے خطابات سے نواز رہے ہوتے ہیں ،خیر چلیں نہ آپ پر امید ہیں ان سیاسی جوداگروں سے اور نہ ہم بلکہ ہم تو بالکل ہی نا اُمید ہوگئے ہیں۔

کیو نکہ صحافی معاشرے کے چراغ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ اب چراغوں میں روشنی ہی نہیں عمران خان نے مطالبہ کر دیا ہے کہ جوڈیشنل کمیشن میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کو شامل کیا جائے، اس بیان نے سیاست دانوں میں ایک ہلچل مچا دی ہے اور سیاست دان سینہ کوبی کرتے ہوئے چیخ پڑے کہ ایجنسیوں کی شمولیت کا مطالبہ غیر آئینی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کے تحت اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کی چھوٹی سی مثال ضرور دیں گے کہ شکار پور کے علاقے خانپور کے رہائشی عبدالرحمان نے اپنے 5سالہ بیٹے انور علی کے علاج کے لئے اپنے گردے فروخت کرنے کا اعلان سکھر پریس کلب پرکیا۔

یہ خبر تمام چینلز کے علاوہ اخبارات کی زینت بھی بنی ،مگر اب تک کسی بھی حکومتی وزیر نے اس خبر کے حوالے سے قدم نہیںاُٹھایا، اس میں وزیر صحت جام مہتاب ڈھر بھی شامل ہیں اگر یہ تکلیف کسی ایم این اے یا وفاقی وزیر کے کسی بچے کو ہو جاتی تو آئین کو مقدس سمجھتے ہوئے وہ موصوف کب کا عوام کے پیسے سے بچے کو لندن لے کر جا چکے ہوتے اور پارلیمنٹ میں اس بچے کے لئے خصوصی دُعا بھی کرائی جاتی جس میں ہمارے ایم این اے علماءکرام بھی شامل ہوتے ،کیونکہ بچہ غریب کا ہے اور آئین اس بات کی اجازت نہیں دے رہا یعنی کے بات پھر تیری جوانی پر آئی کہ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔

ہماری دُعا ہے کہ عبدالرحمان کے بچے کو صحت سے ہمکنار صرف اُس کی ذات ہی کر سکتی ہے ،تو ہم پھر اپنے آئین کی طرف آتے ہیں کہ عمران خان کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ ایجنسیوں کی شمولیت کامطالبہ غیر آئینی ہے ۔یہ جب مشکل میں ہوتے ہیں تو اپنے مفاد کی خاطر فوج کو طلب کرتے ہیں ملک میں جب سیلاب ‘زلزلے آتے ہیں تو فوج ہی دن رات کام کر کے عوام کے دل جیت لیتی ہے۔

اُس وقت کیوں فوج کو طلب کیا جاتا ہے 1965ءکی تاریخ آج بھی فتوحات کے جھنڈے تلے نظر آتی ہے 1971ءکی جنگ میں بھی یہ سیاستدان تھے جنہوں نے ضدکر کے اس کا بازو ہم سے جُدا کر دیا ،فوج بالکل بے قصور تھی، انہیں پتہ ہے کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی اگر شامل ہوگئی، عمران خان کے مطالبے پر تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ،آج حکومت کو جمہوریت کے نام پر حکومت کرتے ہوئے تقریباً 13ماہ ہوگئے ہیں مگر ان سیاستدانوں کی نا اہلی دیکھیں کہ پی پی 226سے (ن) لیگ کے ایم پی اے حنیف جٹ کو جعلی ڈگری کیس میں نا اہل قرار دے دیا گیا اور 90دن میں الیکشن کرانے کاحکم دے دیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو ایم پی اے تھا، یہاں تو یہ عالم ہے کہ وفاقی وزیروں کو نا اہلی اور جعلی ڈگری کیس میں نا اہل قرار دیا جارہا ہے ،جتنے دن نا اہل ہونے والی شخصیت وزارت پر مامور رہی اُس کے نام نہاد اخراجات کا کون ذمے دار ہوگا، کوئی پڑھنے والا نہیں کوئی سُننے والا نہیں اُس نا اہل وزیر نے اپنی وزارت کے دوران کتنے لوگوں کو نوکریاں دیں اُس کا کون ذمے دار ہے،، کیا وہ نوکریاں میرٹ پر دی گئیں ۔

وہ اخراجات شاہانہ جو اُنہوں نے اپنی وزارت میں خرچ کئے اُس کی واپسی کا کون ذمے دار ہے، کیا پاکستان کا آئین اس چور بازاری اور دادا گیری کی اجازت دیتا ہے ،عوام کو نہیں دیتا ہاں ان سیاست دانوں کو دیتا ہے بلکہ ہم کئی بار اپنے کالم میں تذکرہ کر چکے ہیں کہ یہ عوام اب صرف اور صرف فوج پر اعتماد کرتے ہیں ،عمران خان کا مو¿قف سوفیصد صحےح ہے جب تک اعلیٰ عدالتیں اور فوج کا وجود اس ملک میں ہے لوگ ایسے ہی مطالبے کریں گے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ الیکشن فوج کی زیر نگرانی کرائیں جائیں ،تا کہ آئندہ 20سال تک دھرنوں سے جان چھٹ جائے۔

ہم عمران خان کے صرف اس مطالبے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ ملٹری انٹیلی جنٹس اور آئی ایس آئی کو ضرور شامل کیا جائے ،آئین بھی غریب اور فوج بھی غریب قوم کی ہے ،گزشتہ 25سال سے یہ باریوں کا سلسلہ چل رہا ہے اسے اب اُصولی طور پر آنا چاہئے تب ہی یہ مُلک ترقی کرے گا، جو سیاستدان 25سال قبل کونسلر تھے آج بڑھاپے میں آئین کا شور مچاتے ہوئے وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور قوم کشکول لئے پھر رہی ہے۔

لوگوں کی جان و مال اور عزتیں محفوظ نہیں بلکہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر بھی عدالتی حکم کے مطابق ہونا چاہئے ،کیونکہ چیف الیکشن کمشنر کے لئے دو ریٹائرڈ جج حضرات نے پہلے سے معذرت کر لی ہے ،جب معزز جج حضرات اس ذمے دار عہدے سے معذرت کر چکے تو پھر اس کامطلب ہے کہ جوڈیشنل کمیشن سو فیصد پاک فوج کے معزز ادارے ایم آئی اور آئی ایس آئی کے زیر نگرانی بنائیں جائیں ۔

ہماری دلی حسرت ہے کہ عمران خان کے مطالبے کو قابل احترام ادارہ جسے ہم پاک فوج کہتے ہیں ذاتی دلچسپی لے اور چند لیٹرے اور بدمعاش سیاستدانوں سے اس قوم کی جان چھڑا کر شفاف الیکشن کرادے تا کہ یہ جھگڑا اپنے اختتام کو پہنچے، جب قوم فوج پر اعتبار کرتی ہے تو ان سیاست دانوں کی جانب کیوں نکلے جارہی ہے۔

یہ بھی تو قوم کا حصہ ہیں بس ان میں عوام میں یہ فرق ہے کہ یہ اپنے مفادات کے لئے آئین کے رکھوالے ہیں اور عوام اس آئین کے بھر پور انداز میںثمرات دیکھنا چاہتی ہیں اور یہ کام صرف اور صرف پاک فوج ہی کرسکتی ہے، بقول شاعر کہ

”کسی کی شان میں ایک لفظ نہیں لکھا
جو گھر جلے تو اُسے روشنی نہیں لکھا“

شاید آپ یہ بھی پسند کریں