2013 کے انتخابات میں دھاندلی پر ہر سیاسی جماعت نے شور کیا مگر سب سے زیادہ احتجاج عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے کیا- حکومت کا خیال تھا ہمیشہ کی طرح دھاندلی پر وقتی واویلا ہوگا اور پھر حالات سمبھل جائیں گے مگر عمران خان روایتی سیاستدان نہیں تھا وہ دھن کا پکا اور آخری دم تک مقابلہ کرنا جانتا تھا- عمران خان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے اس پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں اس نے پاکستان کا پیسا کھایا نہیں ہے اور پاکستان کا ہر فرد عمران خان کی ایمانداری سے انکار نہیں کر سکتا –
عمران خان نے بہت پہلے کہا تھا اگر اسے انصاف نہ ملا تو وہ سڑکوں پر احتجاج کرے گا – دھاندلی کے خلاف عمران خان نے اسمبلی میں آواز اٹھائی مگر انصاف نہیں ملا – الیکشن ٹربیونل کے فیصلے ابھی تک نہیں ہو سکے- جب عمران خان 14 اگست کو لاہور سے نکلے تو میرا اس وقت بھی یہی خیال تھا کے عمران خان کو نکلنے سے پہلے قوم کو جلسے کر کے جگانا چاہیے تھا – اور اگر آخری جلسہ 14 اگست کو لاہور میں کر کے نکلا جاتا تو حکومت کے لئے سمبھلنا مشکل ہو جاتا – اسلام آباد پوھنچنے کے بعد حالات جیسے بھی رہے ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا کیوں کے PTI ہوم ورک کے بغیر نکلی تھی –
مگر اس دفعہ حالات بلکل مختلف ہیں عمران خان 31 اگست کی رات جو کچھ ہوا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور اس بات کا کریڈٹ انھیں ضرور دینا چاہیے کے انہوں نے شدید آنسو گیس کا مقابلہ خود کیا- اس دفعہ وہ مقابلہ کی تیاری کر چکے ہوں گے- اب حالات اس لئے بھی مختلف ہیں کے عمران خان نے 100 سے زاہد دنوں میں اپنے کھلاڑیوں کو خوب تیاری کروائی – ان سو دنوں میں ان کے دھرنے اور جلسوں کو خوب کوریج ملی جس سے عمران کا پیغام ہر گھر میں پہنچ گیا- عمران خان کو لوگ facebook کا لیڈر کہتے تھے مگر اس دھرنے نے انھیں لوگوں کے دلوں کا لیڈر بنا دیا ہے- اب عمران خان صرف نوجوانوں کے لیڈر نہی رہے بلکے خواتین اور بزرگوں کی بہت بڑی تعداد بھی آپ کے ساتھ ہے-
ان 100 دنوں نے قوم کو جگا دیا آج پاکستانی قوم اپنے حقوق کے لئے کھڑی ہوگئ ہے- مگر میں آج بھی کہتا ہوں عمران خان کو 30 نومبر سے پہلے ایک جلسہ فیصل آباد بھی کرنا چاہیے تھا کیوں کے فیصل آباد پنجاب کا دوسرا بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے-
آج ہر زبان پر بس ایک ہی سوال ہے کے نومبر کی 30 تاریخ کو کیا ہونے والا ہے اس سوال کا جواب دینا یقینا ابھی مشکل ہے مگر حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے جیسے حکومت اور عمران خان میں 30 کو فائنل میچ ہونے جا رہا ہے-
حکومت نے وفاقی دارلحکومت کے ریڈ زون میں داخلے کی اجازت بند کر دی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کا ا صرار ہے وہ جلسہ اسی جگہ کرے گی جہاں اس کا دھرنا جاری ہے اس ماحول میں حکومت کے لئے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں- اسلام آباد پولیس نے تحریری آرڈر کے بغیر کسی بھی کاروائی سے انکار کر دیا ہے- اب ایک ہی چارہ ہے حکومت تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت دے- روکنے سے تصادم ہوگا اور حکومت کے لئے صورت حال کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا کیوں کے عوام کے جنوں کو اگر کوئی کنٹرول کر سکتا ہے تو وہ عمران خان ہے نہ کے حکومت یا پولیس-