The news is by your side.

خدارا حق داروں کو حق دیجیے

بصارت الله رب العزت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے- جسکے بغیر زندگی ادھوری ہے- یاد رکھیے نابینا پن صرف آنکھوں کا ہی نہیں ‘ دل کا بھی ہوتا ہے- اور حقیقت میں اصّل نابینا وہ ہے جو انسانیت سے محروم ہو- افسوس اس پر جو آنکھیں رکھنے کے باوجود دیکھ نہیں سکتا-

ہمارے معاشرے میں جہاں بصارت سے محروم ہمارے بہن بھائی ہیں وہیں انسانیت سے مرحوم افراد کی تعداد ان سے بہت زیادہ ہے- جنکی آنکھیں تو ہیں اور وہ دیکھ بھی سکتے ہیں مگر ان کے دل بےحس ہیں- ظلم و جبر انکا معمول ہے- کمزور پر ٹوٹ پڑھتے ہیں اور طاقتور کے غلام ہیں انکی نوکری کرنا انکے تلوے چاٹنا اور بےکسوں’ غریبوں’ معذوروں کا خون چوس کر پروان چڑھتے ہیں- خواب غفلت میں ایسے ڈوبے ہیں کے موت کا خیال ہی نہی-

“معذوروں کے دن” جب ساری دنیا میں معذور افراد سے اظھار یکجہتی کیا جا رہا تھا وہیں پاکستان میں بھی اپنے حق کے لیے نابینا افراد مظاہرہ کر رہے تھے- یہ مظاہرہ بھی پاکستانی تاریخ کا انوکھا مظاہرہ تھا- پہلی دفعہ یہ لوگ اپنے حقوق کے لئے پرامن مظاہرہ کر رہے تھے- مگر اسی دوران قانون کے رکھوالوں نے دھاوا بول کر ان سے ناصرف بتمیزی کی بلکے دھکے دے کر تشدد بھی کیا- مقام حیرت ہے کے ان نابینا افراد سے کون سا خطرہ تھا- شاید آپ کے نزدیک ان کے احتجاج کے پیچھے فوج یا ISI ملوث ہو- اگر ایسا نہ بھی ہوا تو اس احتجاج سے آپکی جمھوریت ضرور خطرے میں ہوگی-

کیا آپ نے ان بے بس اور معذور افراد سے یہ پوچھنے کی زحمت کی کے وہ اتنی مشکل سے یہاں کیوں آئے تھے- یقین جانیے ان کے پیچھے نہ فوج تھی نہ ISI بلکے یہ اپنے حقوق کے لئے یہاں جمع ہوے تھے- یہ حق تو وہ تھا جو آپ ہی نے انہیں دیا تھا کے ملازمتوں میں تمہارا 2فیصد حصہ ہوگا- اتنے برسوں بعد یہ نابینا افراد اپنے حق کے لئے آ ئے تو انکو سینے سے لگانا چاہیے تھا اور ان سے حق تلفی کی معافی مانگنی چاہیے تھی- کیوں کے بے کس ‘ بے سہارا اور معذوروں کا الله کے سوا کوئی نہیں ہوتا- لہٰذا ان کی حق تلفی کا سوال بھی الله ہی پوچھے گا-

ہم تو اس عظیم نبی کی امّت ہیں جو خود تمام جہانوں کی رحمت ہیں- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہے- تو کیا ہم بھول گئے جب ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ایک پاگل خاتون پیش ہوئ- آپ کو بلایا- آپ تشریف لے گے- کافی دیر دھوپ میں کھڑے ہوکر اسکی باتیں سنتے رہے یہاں تک کے وہ اگلے روز دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی- جب ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو پسینے سے شرابور تھے- یہ دیکھ کر اصحاب گویا ہوئے اے الله کے رسول ہم قربان جائیں آپ پر- آپ جانتے تھے یہ عورت پاگل ہے تو آپ اتنی دیر دھوپ پر کھڑے ہو کر اسکی باتیں کیوں سنتے رہے- تو آقا کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اے میرے اصحاب اسکی بات تو کوئی نہی سنتا تو کیا میں بھی نہ سنو …… اس لائن پر غور ضرور کیجیے گا – یہ ہے محبت اور یہ ہے طریقہ- یہاں تو آپکو انکی بات سننے کو کہا جا رہا ہے جو اپنے ملک کے لئے کچھ کرنا چاھتے ہیں-

جس ملک میں تقریبآ 50 سے 55 لاکھ معذور افراد ہوں- جنکے لئے نہ کوئی علیحدہ سڑک ‘ نہ علیحدہ تعلیمی ادارہ اور نہ کوٹے کے مطابق 2فیصد ملازمتوں میں حصہ ہو تو وہ ہمارے محلات کے آگے احتجاج نہ کریں تو کیا کریں-

اہل اقتدار سے ادب سے عرض ہے عوام کے مزاج کو سمجھیں اور فوری طور پر معذور افراد کا تعلیمی اداروں اور تمام سرکاری ملازمتوں میں کوٹا 2 سے بڑھا کر 10فیصد کریں تاکے انکی خدمات سے بھی فائدہ اٹھا کر عظیم پاکستان بنایا جا سکے-

شاید آپ یہ بھی پسند کریں