میں ہی نہیں بہت سے پاکستانی بھائی حیرانگی کہ سمندر میں غوطے لگارہے ہیں لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ یہاں جمہوریت اور اس جمہوریت میں انصاف کہا ہے ؟ نصف صدی سے زائد عرصے میں قانون کو توانا اور مضبوط کرنے کے بجاۓ اسے تماشا بنادیا گیا ہے اور عوام تماشائی دونوں محو حیرت ہیں کہ دونوں کا ہوگا کیا یہ علیحدہ بحث ہے کہ انسانی قانون کی یہ حالت اس لیے ہوئی کہ یہ قانون خداوندی کی طرح مضبوط ثابت نہیں ہوا .انسان کو طاقت حاصل تھی کہ وہ اس میں ردوبدل کرتا رہا،جبکہ قانون خداوندی میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار پیغمبروں کو بھی نہ تھا .
پاکستان میں ہم لارڈ میکالے کی تعزیرات کے طرز کا پاکستان کا سامنا کرتے ہوۓ چلے آرہے ہیں تو اس پر بحث مقصود ہے پاکستان میں عوام قانون و انصاف پر مختلیف راے رکھتے ہیں ایک طبقہ اس بات پر بضد ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز نہیں اور ایک طبقہ کہتا ہے کہ قانون پاکستان میں قانون صرف کتاب کی حد تک اور کچھ اسے مخصوص لوگوں کے لیے قراردیتا ہے کچھ لوگ قانون کو اپاہج فالج زدہ قرار دے کر اسے مفلوج قرار دیتے ہیں.
میرے ایک ملنے والے ہیں وہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قانون کوئی پگھلنے یا ڈھلنے والی چیز ہے اسے استعمال میں لانے والا اپنی مرضی کا مالک ہے کہ اسے لوہے کی طرح سخت بنائے یا موم کی طرح نرم .اور لوہے سے بھی زیادہ سخت قانون صرف غریب و لاچاروں کے لیے بنادیا جاتا ہے اور جس کی جیب میں قائداعظم کی فوٹو والا نوٹ ہو اس کے لیے موم سے نرم بنادیا جاتا ہے اور بعض لگتا ہے کہ قانون کی سب دفعات صرف غریبوں کے لیے ہیں پاکستان میں ہماری عدلیہ اور حکمرانوں نے کبھی ایسے اقدام اور قانون سازی ہی نہیں کی جس سے عوام کا عدالتوں اور اس نظام پر اعتماد بحال ہو بروقت انصاف کا ہونا اور ترجیحی بنیادوں پر فیصلے نہ ہونے سے عوام کو مایوسی کا سامنا ہے پاکستان میں پچھلے 6 سالوں سے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کا ڈیرہ ہے مگر آج تک اس جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے اور عوام اس دور جمہوریت کو آمریت سے بدتر قرار دے رہے ہیں درحقیقت پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں مگر عوام کو اس کا فرق کیسے پتہ چلتا۔
گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں ہیجان کی صورتحال ہے سیاستدان پہلے بھی دلیرانہ فیصلوں اور ملک کو درپیش مسائل کو سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے میں ناکام تھے مگر اب پاکستان میں جمہوری جماعتوں کی ناکامیاں واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہیں مثال کہ طور پر ملک میں 6 سال میں بلدیاتی انتخابات نہ کروانا ،امن امان کا قیام ،عوام کے جان و مال کا تحفظ ،اور قانون پر عمل درآمد و دیگر اقدامات ایسے ہیں جو جمہوریت اور پاکستان میں ترقی کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہیں مگر ہماری جمہوری جماعتیں اس میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔
جمہوری جماعتیں عوام کی حمایت کے باوجود آج سے چند ماہ پہلے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور انکے خاتمے کے لیے فیصلہ نہ کرپا رہی تھیں ایسے میں جب فوج نے عوام کی حمایت محسوس کی تو افواج پاکستان نے آگے بڑھ کر بھرپور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا جو اب بھی جاری ہے جو آخری دہشتگرد تک جاری رہے گا۔
اسی طرح جب 16 دسمبر کے سانحے پشاور کے بعد ملک کودہشت گردوں سے نجات دلانے اور قوم کو یکجا کرنے کا وقت ایا تو وزیراعظم پاکستان نے مختلیف آل پارٹیز کانفرنسیں کیں مگر کوئی لائحہ عمل یا کوئ ٹھوس اقدامات کے لیے اتفاق راۓ نہ کرپاے جیسے سیاستدان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بناسکتے .وزیراعظم پاکستان نواز شریف صاحب کی زیرصدارت 24-12-2014 کو پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں تمام سیاسی جماعتوں و پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی شرکت کی اس اجلاس میں تمام جماعتوں کی سفارشوں پر غور کیا گیا اور 15 سے زائد سفارشات پراتفاق راۓ پایا گیا۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کے قیام پر مختلیف آرا رکھتی ہیں پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی نے پہلے اسکی مخالفت کی پھر کچھ وقت لے کر اسکی حمایت کی ، پاکستان تحریک انصاف جمعیت علما اسلام ف جماعت اسلامی نے مشروط حمایت کی اور ایم کیو ایم نے فوجی عدالتوں کے قیام کی سخت مخالفت کی اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیا اور الطاف حسین صاحب کا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے بہتر ہے ملک میں مارشل لا لگادیا جاۓ جہاں 100 مارشل لا دیکھ لیے وہاں ایک اور سہی مگر پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے الطاف حسین صاحب کو فون کرکے انکے تحفظات دور کرنے کی کوشش بھی کی مگر انکے موقف میں تبدیلی سامنے نہیں آئی. مگر میڈیا کے مطابق ایم کیو ایم نے بھی ملٹری کورٹس کی حمایت کردی۔
کل جماعتی پارلیمانی اجلاس میں متفقہ قراردادیں
پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کواسپیڈی ٹرائل کورٹس کا نام دیا گیا
دہشت گردوں کی مالی معاونت روکی جاے گی
دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے وقت مقرر کیا جاے گا
فوری انصاف کے لیے مقدمات کا فیصلہ کم سے کم وقت میں ہوگا
کالعدم تنظیموں کو دوبارہ فعل نہیں ہونے دیا جاۓ گا
فاٹا میں انتظامی و ترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی
خصوصی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین و قانون میں ترامیم کی جاۓ گی
خصوصی عدالتوں کی مدت 2 سال ہوگی
ملک میں مسلح جتھے بنانے کی اجازت نہیں ہوگی
دہشت گردوں کے مواصلاتی رابطوں کے نظام کو ختم کرنا ہوگا
غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنا ہونگے.
فوجی افسران پر مشتمل خصوصی کورٹس قائم کی جائنگی۔
وزیراعظم صاحب کی زیرصدارت پارلیمانی جماعتوں کے طویل وقت تک جاری رہنے والے اجلاس میں اختیتام پر تمام جماعتوں نے یکجا ہونے کا عزم کیا اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہچانے کے لیے سب نے مشروط و غیرمشروط طور پر اسپیڈی ٹرائل کورٹس کے قیام پر رضا مندی کا اظہار کیا۔
یہ ہیں ہمارے حکمران جو اپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے افواج پاکستان کی مدد تو لیتے ہیں مگر جب یہ بحران سے نکل جاتے ہیں تو انھی پر الزام تراشی کرتے ہیں بے شک ہماری افواج پاکستان دنیا کی بہترین افواج ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کے لیے اپنی خدمات فراہم کی ہیں ہمیں اپنی افواج پاکستان پر فخر ہے اور عوام سیاستدانوں سے زیادہ اپنی افواج پر بھروسہ کرتی ہے ہمارے سیاسی حکمرانوں کو چاہیے کہ ملک و قوم کیلئے قانون سازی کریں آج ہماری عدلیہ کا نظام صحیح و موثر ہوتا تو اسپیڈی ٹرائل کورٹس کی ضرورت نہیں ہوتی مگر شائد ہمارے حکمران عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں کرسکتے تھے ،مگر اب بھی وقت ہے کہ صحیح اور بروقت فیصلے کیے جائیں اور اداروں کو صحیح چلانے کے لیے اصلاحات لانا چاہیے اگر اسی طرح ملٹری کورٹس کے قیام جیسے فیصلے کرنے ہیں تو پاکستان میں مارشل لا لگا دیا جاۓ۔
پاکستان میں یوں تو بہت سی آل پارٹیز کانفرنسیں ہوچکی ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کی زیر صدارت سیاسی و عسکری قیادت کی متفقہ قرارداد پر عمل درآمد ہوتا ہے یا پھر ماضی کی طرح یہ بھی بے سود ثابت ہونگی۔