The news is by your side.

سب اچھا ہے

گذشتہ 5سال سے مایوس پاکستانی قوم ایک نئے نشے سے سرشار ہے، اور یہ قوم نئے نشے کے تحت اجلاسوں کا تماشہ دیکھ رہی ہے ہمارے چند سیاست دانوں نے اجلاسوں کو ایک نئے فیشن کے طور پر روشناس کرادیا ہے جس کی مثال قارئین ہم آپ کو دیتے ہیں، اور آپ ہماری بات سے اتفاق بھی کریں گے۔

نا معلوم افراد کی فائرنگ سے پانچ لوگ ہلاک تین زخمی ، وزرا ءاور بیورو کریٹ نے اجلاس طلب کرلیا، چند اوباش نوجوانوں نے گھرمیں ڈاکہ ڈالا لوگوں کو زخمی اور خواتین کے ساتھ ذیاتی، اجلاس طلب ،اٹھارہ گھنٹے بجلی شہر سے ناپید اجلاس طلب، بوسیدہ اور ناکارہ بس کا سلینڈر پھٹنے سے کئی ہلاک اور بے شمار زخمی اجلاس طلب ،وی آئی پی پر وٹوکول کی وجہ سے کار اوررکشہ میں بچے کی پیدائش اجلاس طلب، شہر کے بیشتر علاقوں میں ٹریفک دو گھنٹے بری طرح جام گاڑیوں کے پیٹرول اور سی این جی ختم اجلاس طلب، شہر میں دھرنے سینکڑوں افراد پیٹرول پر یشان، اجلاس طلب اور نہ جانے کن کن مسائل پر اجلاس طلب کئے جاتے ہیں۔

چینلز ان اجلاسوں کو کوریج بھی کرتے ہیں مگر دوسرے دن پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان اجلاسوں کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں، تو دکھ ہوتا ہے کہ ان کے بے کار کے اجلاسوں کی وجہ سے ہمارے وزراءاور بیورو کریٹ کاوقت برباد کیا جاتا ہے جبکہ ان کے وقت کا ہمیں احساس ہے کہ بہت قیمتی ہے خدارا ان اجلاسوں کو ختم کیجئے اور ہمارے وزراءاور بیورو کریڈز کو اتنا پریشان مت کریں ، کہ یہ گھبرا کر استعفی دے دیں، تو پھر بتائیے کہ ملک کا نظام کون چلائے گا۔

جس میں کوئی نظام ہی نہیں ہے، دوسرا فیشن ایک اور نمودار ہوا ہے، کہ جو حکومت میں نہیں ہیں اور اپوزیشن کے گھوڑے پر بیٹھے ہیں وہ پریس اور چینلز کو حکومت کے خلاف بیانات دیتے ہیں قوم کے مسائل کا حل ان سیاست دانوں نے قومی اسمبلی میں بیٹھ کر نہیں کرنا جبکہ یہ اپنے آپ کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں آج سے 40سال قبل اپوزیشن کا کردار ہوا کرتا تھا اپنی بات کو اسمبلی میں منواتے تھے۔

حکومت بھی خوفزدہ رہتی تھی اور شور شرابے کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی تھی، اس وقت کی سیاست میں مفادات نہیں تھے آج تو مفادات کے میدان سج گئے ہیں جو کل وزراءتھے آج اپوزیشن میں ہیں اور اتنے ہی طاقت ورہیں جیسے وہ اپنی حکومت میں تھے ایک دوسرے کاکام سر آنکھوں پر کرتے ہیں اپوزیشن کے پاس بھی وہی عالیشان پرو ٹوکول نہیں وہی گاڑیاں وہی پولیس رواں دواں ہے ان کے قاتلوں کے ساتھ، صرف جھنڈے کا فرق ہے۔

لاقانونیت اور بے حسی تو یہ کہہ رہی ہے کہ آئندہ دس سال بعد یہ آئین میں ترمیم کراکے اپوزیشن کیلئے بھی جھنڈے کا بل پاس کرالیں گے، پاکستان کی سیاست کے کیا کہنے جو الیکشن ہار جائے، وہ مشیر اور جو جیت جائے وہ وزیر باقی قوم فقیر اور یہ قوم غربت کی زندگی 1990سے گزار رہی ہے جو بچہ اس وقت پیدا ہوا تھا آج وہ 25سال کا ہے وہ مفلسی کا ہار اپنے گلے میں ڈالے 50سال کا ہونے کے باوجود رات کی روٹی کیلئے محتاج ہے ، ہم کتنے عمر رسیدہ لوگوں کو دیکھتے ہیں جنکے چہرے اخلاس سے زرد ہو گئے۔

اب وہ اپنی اولاد کیلئے فکر مند ہیں سیاسی جماعتوں نے مایوس کیا اور کچھ کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے اتنے امیر و کبیر ہیں کہ ان کے چہرے تمکنت ، غرور اور سیاہ کاری سے حیوانوں کر طرح گلتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے دھرنوں نے اس سے لوگوں کی نیندیں حرام کردی تھیں ، جاگیردار ،سرمایہ دار وڈیرے ، پیر ، قبضہ گیر، بھتہ خور، سب پریشان تھے نوجوانوں کے ایک پلیٹ فارم پر آنے سے ان کی لوٹ مار کی پلٹیس ٹوٹی ہوئی نظر آرہی تھیں ۔

وہ تو خدا بھلا کرے ہماری پاکستا ن آرمی کا کہ ان کی وجہ سے اس ملک کی سر زمین قائم ہے اور یہ پاکستان قائم رہے گا، کہ قوم فوج کے ساتھ ہے ہمارے چند سیاستدان تو ایسے ہیں کہ ان کا بس چلے تو یہ غریب کا گوشت ہاتھوں کے بجائے کاٹے اور چمچوں سے کھائیں کہ ہاتھ خراب نہ ہوں جائیں پچھلے ہفتے ہم نے گدھوں کے بارے میں لکھا تھا کہ اسلا م آباد میں گدھے آپ کو بہت ملیں گے کیونکہ وہاں ہریالی بہت ہے۔

پچھلے دنوں مقامی روزنامے میں لکھا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر نے ملتان کے قریب چھاپہ مارکر 22من گدھوں کا گوشت ضبط کر لیا اور ملزم علی رحمان یہ گوشت اسلام کے ہوٹلوں میں سپلائی کرتا تھا اب ظاہر ہے کہ جن ہوٹلوں میں یہ گوشت سپلائی ہورہا تھا اس ہوٹل میں بڑے گدھے تو نہیں آتے ہونگے ہاں گدھوں کے چھوٹے گدھے یہ گوشت ضرور استعمال کررہے ہونگے اس سے ثابت ہوا کہ وسائل کی قلت کی وجہ سے ان گدھوں نے گدھوں کو بہت معتبر بنادیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں