The news is by your side.

نظربند’نظریہ‘انگڑائیاں لے رہا ہے

یہ 11ستمبر1948کا واقعہ ہےمون سون کی رخصتی تھی اورگرمی و حبس کی آمد، مملکتِ پاکستان کے خالق قائداعظم محمد علی جناح دن کے دو بجے کوئٹہ ائیرپورٹ اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ پہنچے بلکہ پہنچائے گئے۔ ضعف بتارہا تھا کہ شاید یہ تھکا ہارا مسافر ہے اور چہرے کا سکون یہ کہہ رہا تھا کہ’صدی کا سب سے کامیاب شخص ہے‘۔ طیارہ کراچی کی جانب پرواز کیلئے تیارتھا۔ 4بجے کراچی ائیرپورٹ پہنچے قائد اعظم کی جیب کے کھوٹے سکوں کی لمبی قطار استقبال کیلئے موجود تھی ائیرپورٹ سے گورنرہاؤس لے جانے والی فوجی ایمولینس انتظارمیں تھی۔ کوئی بڑا پروٹوکو ل نہیں آگے پیچھے ایک دو گاڑیوں کے درمیان بانیِ پاکستان کی گاڑی گورنرہاؤس کی جانب رواں دواں تھی۔ ایمبولینس کی رفتار اتنی سست تھی کہ دیگرکابینہ کی گاڑیوں کی دھول میں گم ہوچکی تھی۔

ایمولینس رک گئی بابا جی کی سانس بھی رک گئی اوررہ گیا نظریہ پاکستان جو کہ مارشل لاء، گورنرراج، انتخابات، اسمبلیوں کا قیام، تحلیل اورسیاست میں کہیں کھوگیا شاید محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ نظر بند ہوگیا تھا! کہاں گیا؟ کسی نے تلاش ہی نہیں کیا کہ ملتا۔ وقت گزرنے لگالیاقت علی خان شہید ہوگئے، 2سال خواجہ ناظم الدین اقتدار میں رہے، پھر بوگرہ راج چلا، 2سال بعد چوہدری علی نے اقتدار سنبھالا، پھرایک سال کیلئے حسین شہید آگئے،2ماہ ابراہیم اسماعیل رہے پھرملک فیروزنون نے قلمدان سنبھالا، ایک ہی سال بعد پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگ گیا، ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو یحییٰ خان آئے اور ملک دولخت کردیا،ذولفقار بھٹو وزیراعظم بنے اس دورانیے میں نظریہ پاکستان نے دوبارہ انگڑائی لینے کی کوشش کی مگرضیاء الحق نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لی اور پھر8سال نظریہ بوٹوں کے نیچے دبتا چلا گیا۔ طیارہ حادثہ نے ضیاء کے سیاہ دور کو ختم کیا تو جونیجو آگئے، 1988 سے 1999 تک اقتدار لونڈی کی طرح کبھی بھٹو خاندان تو کبھی شریف خاندان کے پاس رہا۔ اکتوبر99میں مشرف آگئے ان کےدور میں نظریے نے کمر سیدھا کرنا شروع کی مگران کی ابتداء کی اچھائیوں کوان کے دور کے آخر کے غلط فیصلوں نے مٹادیا۔

نظریے نے اپنی بقا کیلئے دردرپھرنا شروع کردیا بے نظیر بھٹو کی شہادت نے زرداری کو اقتدار بخشا جو پانچ سال رینگتے رینگتے چلا، 9سال سے زائد عرصہ عرب ممالک میں عیاشیاں اوراپنے کاروبار کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے والے میاں نواز شریف کی واپسی بھی ہوچکی تھی۔ 2013کی دھاندلی نے اقتدار ان کی جھولی میں دے دیا۔ گویا1948سے لیکر 2015 تک اقتدار کی رسہ کشی نے’نظریہ پاکستان‘کو پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ یہ ماہ و سال ، یہ بدلتے چہرے، یہ انتخابات کے ہیر پھیر، سب رانگ نمبر تھا۔ 67سال کی نظربندی کے بعد نظریہ پاکستان نے اپنی آنکھیں کھولنا شروع کردی ہیں۔ وہ اپنی جگہ ڈھونڈ رہا ہے۔ جہاں اسے اپنایا جائے اورپھر پھیلایا جائے۔ وہ تلاش میں ہے۔

ایک جانب ایک عقیدے کو ماننے والی تین جماعتیں، جی ہاں ! ایک وہ جو نظریہ پاکستان کا نعرہ لگا لگا کر بھارت کو للکارتی ہے، دوسری وہ جس کے سربراہ73کے آئین کے حوالے دیتے نہیں تھکتے اور سینیٹ میں جن کا ڈپٹی چیئرمین ہے، اور تیسری وہ جس نے پاکستان کو بننے کے بعد تسلیم کیا پہلے پاکستان کا وجود ان کیلئے کفر تھا۔ نظریہ پاکستان نے ان تین جماعتوں پرنگاہ اٹھائی اور اپنے لئے پناہ کی جگہ مانگی تو وہاں شدت پسندی، انتہاپسندی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ نظریہ پاکستان کا بظاہر تو ان کے سربراہان نام تو لیتے مگر اس کو اپنانے میں ان کے اپنے نظریات کی موت دکھائی دیتی تھی۔
دوسری جانب ایک طبقہ ایسا تھا جن کے لباس ایک جیسے، پگڑیاں یا ٹوپیاں ایک جیسی، طریقے و وظیفے ایک جیسے، دعوت و تبلیغ ایک جیسی، نظریہ پاکستان نے شاید ان کے اندر اتحاد کا ایک رخ دیکھ کر اپنے لئے نرم گوشے کی امید رکھ لی تھی مگر وہاں تو ان کے اپنے بنائے ہوئے اسلام کے علاوہ کسی اسلام کی گنجائش نہ تھی۔ ان کی اپنی منتخب حدیثوں کے علاوہ باقی سارے کی ساری سنت محض کتابوں کی زینت تھی۔ ان کے من پسند پھیلائے ہوئے عقائد کے علاوہ سب شرک، کفر اور بدعت تھانظریہ پاکستان کو تو اس تنگ ماحول میں گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔

ایک جانب روشن خیال سیاسی جماعتیں تھی رنگ برنگے جھنڈے اورخوبصورت سیاسی نعرے منشورکے اندرنظریہ پاکستان، سفید قیمضیں، ویسکوٹ، آگے پیچھے دوڑتی گاڑیاں، ترقیاتی فنڈوں پرپلنے والی فوج ظفر موج، نظریہ پاکستان ان کے مضبوط ہاتھوں میں جاکر کھلے آسمان میں سانس لینے کا خواہش مند ہونے لگا۔ مگر بہت جلد احساس ہوا کہ روٹی کپڑا مکان کی فراہمی محض نعرہ ہے۔ نظراٹھائیں تو بھوکوں، ننگوں اورفٹ پاتھوں پرزندگی بسرکرنے والی عوام کا ہجوم دکھائی دیتا ہے۔ منشور میں تو ترقی کے وعدے ہے لیکن عمل میں اپنے خاندان کو نوازنے کے ارادے، تقریروں میں امن و امان کے فروغ کی قسمیں، عمل میں لاشیں گرانے کی رسمیں، مسلم کے پیچھے نواز دھندے، پیپلز کے نام پرزرداروں کی پھندے ،متحدہ کے نام پربھتہ اور قوم وزبان کی نمائندہ جماعتوں کے نام پر لسانی تعصبات پھیلانے کی سازش نظر آئی، سفید قمیضوں کے پیچھے کالے کرتوت چھپے تھے اور ویسکوٹوں کے بھیس میں نوٹوں کا گورکھ دھندا تھا۔

نظریہ پاکستان نے جس جس قیادت اور جماعت کی منزل کو دیکھا تو غلط ہی پایا ان کے وعدے رانگ نمبر، قسمیں رانگ نمبر، جلسے رانگ نمبر، میثاق رانگ نمبر، مجالس رانگ نمبر، کمیٹیاں رانگ نمبر حتیٰ کہ اسمبلیاں بھی رانگ نمبر نکلیں۔

نظریہ پاکستان نے نظر اپنے خالق کی طرف نظراٹھائی تو اس کی کہی ہوئی ایک ایک بات کی حقانیت پرحیران رہ گیا، مسجد و منبر کے پاسبان آج تک نماز و روزہ کی اجازت پہ خوش ہیں۔ بنتِ ہوا لٹ رہی ہے اور شیخ مریدوں کے ساتھ مے خانے میں گم ہیں۔ سیاست سیاہ باب بن چکی ہے اسلامی فلاحی ریاست پاکستان کا نظریہ اب اس ملک کے نوجوانوں کی جانب تک رہاہے جنہیں شعورمل رہا ہے اورجوں جوں شعور اپنی آنکھیں کھول رہا ہے وہ اپنے وطن کے نظریے کو دل و جان سے اپنا رہے ہیں۔ ہواؤں کے رخ بدلتے دکھائی دیتے ہیں۔ منافق کو منافق اور ظالم کو ظالم کہنے کی جرات پیدا ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 70فیصد طبقہ جاگ رہا ہے اور ہاتھوں ہاتھ نظریہ پاکستان کو اپنا رہا ہے جو ہمارے ملک کی اساس ہے ۔ جس کے وجود کی ساتھ پاکستان کا وجود ہے۔ وہ لمحے آنے کو ہیں جب نظریہ ایک ایک دل میں اپنی جگہ بنائے گا اور پاکستان کا عالمی چہرہ یک لخت بدلے گا، نظر بند نظریہ انگڑائیاں لے رہا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں