دنیا کے بہت سارے ممالک ایک دوسرے کے خلاف عناد رکھتےہیں کیونکہ قومی مفاد سب کوعزیز ہوتا ہے اور کوئی ملک اور ریاست یہ برداشت نہیں کرتی کہ اس کے مفادات اور پالیسی کو زک پہنچے۔ پھرسمندر درمیان میں حائل ہوں یا سرحدیں آپس میں ملتی ہوں ، جنگ لڑنی پڑے یا دشمن کے دشمن کو دوست بنانا پڑے اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحد اور مفاد کی حفاظت ہرقیمت پرکی جاتی ہے۔
اسی طرح بیشتر ہمسایہ ممالک کے درمیان زیادہ ترچپقلش ہی پائی جاتی ہے اوراس کی وجہ بنتے ہیں دو طرفہ مسائل، نسلی، ثقافت جغرافیائی اختلافات اوردو ملکوں کی باہمی تاریخ۔ انگلینڈ اورفرانس، چین اورجاپان وغیرہ اسکی مثال ہیں۔ پاکستان اور بھارت بھی ایسے ہی دو پڑوسی ہیں جو ایک دوسرے کیخلاف شکوک و شبہات، تحفظات اور شکایات کا پورا دفتر تیار رکھتے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات دوستانہ رہیں ۔ 1971 میں بھارتی مدد اورمداخلت کے باعث ملک دولخت ہوگیا لیکن پھر بھی پاکستان نے آگے بڑھتے ہوئے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہتربنانے کی اپنی سی کوشش جاری رکھی لیکن ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم ہربار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
برسراقتدار آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کے ساتھ دوستی کو بہت اہمیت دی اور حد درجہ لچک کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ بہت سے لوگ وزیراعظم کے ان اقدامات کو انکے خاندان کے بھارت میں موجود کاروباری مفادات کا شاخسانہ قرار دینے لگے ۔ 2014 میں بھارتی الیکشن بی جے پی جیتی اور نریندرا مودی جن کو’ گجرات کا قصائی‘ بھی کہتے ہیں بھارت کے پردھان منتری بنے اور آر ایس ایس کی اپنی مخصوص انتہا پسندی کے راستے پر چل پڑے۔ انہوں نے پاکستان کو آنکھیں دکھانے کی پالیسی کے تحت جولائی2014 سے تاحال سرحد پردھما چوکڑی مچا رکھی ہے اور پاکستان کی امن کی تمام ترکوشش اور خواہش لائن آف کنٹرول اورورکنگ باؤنڈری پربھارتی اسلحے سے نکلتے شعلوں اوردھویں میں تحلیل ہوکر رہ گئی ہے۔
مودی سرکار چونکہ اندرونی طور پرناکام ہورہی ہے۔ بدترمعاشی پالیسی شائننگ انڈیا کو گہنا رہی ہے ساتھ ہی انتہا پسندانہ اقدامات اقلیتوں کو بے چین کئے ہوئے ہیں جو سیکولر انڈیا کے منہ پر کالک ہے۔ خالصتان موومنٹ کی دبی ہوئی راکھ میں سے پھرچنگاریاں اٹھ رہی ہیں تو شاید انہی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاررہی ہے تاکہ جنتا کو اس لالی پاپ سے رام کیا جاسکے۔ دوسری طرف بھارت کے اندرونی مسائل کے باعث جنم لینےوالے دہشت گردی کے تمام واقعات کے بے بنیاد الزامات پاکستان کے سرتھوپ کرانڈین حکومت اپنی اور اپنے سکیورٹی اداروں کی ناقص کارکردگی اورنا اہلی پرپردہ ڈالنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔
بھارت خطے کی چوکیداری کے خودساختہ زعم میں بھی مبتلا ہے اورپاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے خائف بھی۔ پاکستان کی ناکام ریاست بننے کی نہج سے امن اوربہتر معیشت کی طرف واپسی بھی اسکےلئے ناقابل برداشت ہے۔
آزاد بلوچستان کا نعرہ بھی دم توڑرہا ہے اور ضرب عضب بھی کامیابی سے جاری ہے۔ اس وقت فوج اورحکومت پاکستان میں ’را‘کی مداخلت پریک زبان ہے ۔ ’را‘کے ایجنٹ جگہ جگہ سے گرفتار بھی ہورہےہیں اوراب یہ مسئلہ ثبوت کے ساتھ اقوام متحدہ میں لے جانے کی تیاری ہورہی ہے۔ اس تناظرمیں دیکھا جائے توبھارت کی بوکھلاہٹ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پاک فوج کا دھیان ضربِ عضب سے ہٹا کراسے سرحدی کشیدگی میں الجھا کرتھکانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو اندرونی خلفشار سے نجات نہ مل سکے اورہندوستان اپنے مکروہ عزائم اس سرزمین پرآگے بڑھاتا رہے دوسری طرف اسے اپنی عسکری دھاک بھی بٹھانا مقصود ہے لیکن پاک فوج اورسرحدی علاقوں کے رہائشی بھارت کے آگے سینہ سپرہیں۔
مقبوضہ کشمیرمیں ایک بارپھرولولہ انگیز تحریک آزادی شروع ہوئی ہے جسے دبانے کیلئے مودی سرکار وحشیانہ تشدد کر رہی ہے۔ اگرچہ اقوام عالم اس پرخاموش ہیں لیکن پاکستان نے کافی عرصے کے بعد کشمیرپرجو ٹھوس اورواضح موقف اپنایا اسے کشمیریوں نے بہت سراہا ہے۔ اوفا کی غلطی کو حکومت پاکستان نے نہایت دانشمندی سے درست کر کے بھارتی ڈکشن اوربالادستی کا خواب خاک میں ملادیا۔