The news is by your side.

اردو زبان کا نفاذ

پاکستانی تعلیم و تربیت میں تہذیب و تمدن کی زبان اردو ہے جس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ہم آج ماشاءاللہ اردو لکھتے ہیں اور اردو بولنے کے ساتھ پڑھتے بھی ہیں ہماری نوجوان نسل بھی اردو بولتی ہے اور لکھتی اور پڑھتی ہے اورکافی حدتک اردو کو سمجھتی بھی ہے لیکن اج ہماری نئی نسل اردو کے اداب اسکی ادائیگی اور اسکی اہمیت سے محروم ہے جبکہ اردو زبان میں تہذیب و تمدن کے ساتھ اسلامیات اور اخلاقیات کا زخیرہ بھی موجود ہے اس لیے اردو کی اہمیت و افادیت سے محرومی کی وجہ سے اردو میں موجود زخیرے یا مواد سے محرومیوں کا سبب بھی بنتی ہے۔

آج تہذیب و تمدن اور دینی زخائر کی زبان اردو جس دور سے گزر رہی ہے اس کی بدحالی کے ذمہ دار خود اردو داں حضرات اساتذہ کرام اور ہمارے والدین ہیں ماضی میں اس زبان کی دلکشی کی وجہ سے دشمن نرغے میں آجاتے تھے اور اسی زبان کے ایک نعرے کی وجہ سے انگریز ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے مگر افسوس کہ آج خود اردو والے ہی اسے تنگ نظری اور حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں جو ایک المیہ ہے ہمارے لیے کہ ہم اردو زبان پر عبور حاصل کرنے کے بجاے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے کی جستجو میں مصروف ہیں جو اردو بولنے والوں کے لمحہ فکریہ ہے کہ آج ایک خاص مقصد کے تحت ہمارے نوجوانوں کو اردو تہذیب سے دور کرکے اردو کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو زبان آج کسمپرسی کی حالت سے گزرنے لگی ہے اگر سرسری سا جائزہ لیا جاے تو اندازہ ہوگا کہ اسکولوں ، کالجوں میں جتنے بھی اساتذہ کرام اردو پڑھا رہے خود انکے بچے بچیاں انگریزی اسکول کالجز میں تعلیم حاصل کررہے جہاں اردو بحیثیت مضمون پڑھائی ہی نہیں جاتی ہے۔

بانیان پاکستان جو تقسیم ہند کے بعد اور پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے بعد اردو زبان کو ورثے میں پاکستان لائے جنہوں نے اردو کو ایک عظیم زبان کا درجہ دلانے اور اسکی اہمیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا انکی اولادیں اپنے اجداد کی وراثت کا صحیح استعمال کررہی ہیں؟ آج اردو کو وراثت میں لانے والوں کی اولادیں بھی اردو زبان کا حق ادا نہیں کررہی ہیں۔

ایک معروف تاریخ دان اور محقق ڈاکٹر گیان چند جین نے کہا تھا کہ زبان کا مسلہ دنیا/معاشرے کے دو میدانوں میں سامنے آتا ہے، ایک سرکاری دفاتر کی زبان اور تعلیمی اداروں کی زبان ، اردو کبھی سرکاری زبان تھی مگر اب صرف قومی زبان ہے۔ پاکستان کی قومی زبان جس کا داخلہ ہمارے سرکاری اداروں چاہے وہ عدلیہ ہو ، عسکری ادارے ، یا اعلیٰ اشرافیہ کےادارے ہوں ہر ادارے میں پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا داخلہ ممنوع ہے۔ مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں انگریزی ایک مقدس زبان سمجھی جاتی ہے۔

 اردو دنیا کی پہلے درجے کی زبان ہے مگر ہمارے یہاں پاکستان کی آزادی کے 68 سالوں میں بھی اسکی اہمیت کو نہ سمجھ پائے اور نہ اسےاپنے سرکاری اداروں میں نافذالعمل کرسکے پاکستان کے 1973 کے آئین کے نفاذ کے 15سال بعد اردو کو سرکاری زبان بنایا جانا تھا مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا ، نہ جانے کتنے ہی سالوں سے پاکستان میں اردو کے نفاذ کے متعلق ایک صاحب کی جانب سے درخواست دائر تھی جسکا فیصلہ بھی آگیاہے۔

موجودہ چیف جسٹس نے گزشتہ چند ماہ قبل اپنے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے جواد ایس خواجہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوے تمام اداروں اور ارباب اختیار کو حکم دیا کہ اردو زبان کو تین ماہ کے اندر سرکاری اداروں میں نافذالعمل کیا جاے۔ اس فیصلے کو مہینے سے زیادہ ہوگیا مگر اب تک اس حکم کی تکمیل نظر نہیں آرہی ہے۔ مگر جسٹس جواد ایس خواجہ نے سرکاری زبان کے نفاذ کو عملی طور پر اپناتے ہوئے اپنے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اردو زبان میں لیا اور اردو کے نفاذ کا عملی مظاہرہ کیا۔

چند انگریزوں کے غلاموں اور عوام کے حقوق غضب کرنے والوں کو ڈر ہے کہ اگر قومی و صوبائی ایوانوں میں پاس ہونے والی قرارداد، بننے والے قوانین اور بجٹ جیسی تقاریر اردو میں ہونے لگیں تو ہرعام آدمی بھی باآسانی سمجھ جائےگا کہ انکے ووٹوں کی مدد سے ایوانوں میں جانے والے انکے لیے کیا کررہے ہیں ، کسی بھی سرکاری ادارے کے ضروری کاغذات کو باآسانی عام آدمی بھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ اردو ایسی زبان ہے جسے پاکستان کے 95 فیصد عوام بنا کسی جھجک کے پڑھ سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں ، سمجھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں، لہٰذا پاکستان کے آئینی ادارے کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے تمام اداروں کو اردو کو نافذ کرنا چاہیے کیونکہ اس سے پاکستان کی تہذیب کو مزید فروغ ملے گا۔

یہ وقت ہمیں پھر نہ ملے گا یہ ہی وقت ہے سنبھل جانے کا اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم سے آراستہ کرنے کا انہیں صحیح تعلیم سوچ و فکر دینے کا، سوچیے اگر یہ زبان نہ رہی تو ہمارے اولیا کرام شعراء کرام مصنفوں کی لکھی ہوئی کتابیں کون پڑھےگا بابائے اردو مولوی عبدالحق ، مولانا ابوالکلام آزاد ، علامہ اقبال ، مرزا غالب مولانا حالی اور سر سید احمد خان جیسے تاریخی ہیروں کو کون یاد رکھے گا؟

اگر تہذیب کو بچانا ہے تو اردو زبان کا ساتھ کبھی مت چھوڑیے اردو کو زندہ رکھیے یہ ہمارا قیمتی اثاثہ اور ہمارا فخر ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں