The news is by your side.

شائننگ انڈیا سے گائے کے گوشت تک

   جب 2004 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ’شائننگ انڈیا‘ کا نعرہ لگایا تو پورے بھارت میں جیسے نئی توانائی بھر گئی۔ تجزیہ نگاروں سے لیکر جنتا تک سب ہی نے مستقبل کی سپرپاور بننے کے خواب آنکھوں میں سجالئے۔ بیشک انڈیا نے اس خواب کو سچ بنانے کیلئے بہت محنت کی، معیشت کی بہتری کے اقدامات سے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور سرمایہ کاری کے رجحانات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ برکس کے قیام کے بعد بھارت دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں بھی شامل ہوگیا ہے۔

لیکن مستقبل پر نظر رکھنے کے چکر میں بھارت نے شاید حال کو یکسرنظراندازکردیا ہے۔ بالادستی اور وقت سےپہلےہی خود کو اس خطے کی سپر پاور سمجھنے کے زعم میں مبتلا انڈیا اس وقت سنگین غلطیاں کررہا ہے۔ پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی پرانی عادت مودی سرکارکے آنے کے بعد سے زیادہ ہی بےلگام نظر آرہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ مسلسل محاذآرائی اورسرحدی خلاف ورزیوں کے بعد بھارتی سرکاراب اوچھے ہتھکنڈوں پراترآئی ہے۔ پاک بھارت کرکٹ سریز سے انکار کرکے انڈیا نے کھیل کے میدانوں کو بھی سیاسی کردیا۔ سمجھوتا ایکسپریس کو حیلے بہانوں سے کبھی روک کراور کبھی تاخیری حربوں سے پاکستانی مسافروں کو اذیت دینا سفارتی آداب کی خلاف ورزی کے ذمرے میں ہی آتا ہے۔ علیحدگی پسند بلوچ عناصر کی کھلم کھلا سرپرستی سے ہندوستان کے پاکستان کے خلاف عزائم مزید بے نقاب ہوگئے ہیں۔

اب نیپال بھارتی مداخلت کا نیا مظاہرہ دیکھ رہا ہے جب سے نیپال نے اپنا آئین بنایا ہے اورنیپال کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی منظوری دی ہے انڈیا یوں سیخ پاہورہا ہے جیسے نیپال ایک آزاد ملک نہیں بھارت کی کوئی اسٹیٹ ہے جسے اپنے فیصلے کرنے کیلئے دہلی  سے اجازت چاہئے۔ پہلے تو مودی سرکار نے آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کروانے کی کوشش کی لیکن جب دال نہ گلی تو نیپال کی ناکہ بندی کردی۔ تین ہفتوں سے جاری تجارتی بندش کی طا قت کے اس جبری مظاہرے نے نیپال کی معیشت کو شدید دھچکے پہنچائے ہیں۔ چاروں طرف سے خشکی سے گھرے اس ملک میں اگر ایک طرف بھارت نوازلابی سرگرم ہوئی تو دوسری طرف نیپال کے عوام بھارت کی اس بے شرمی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اوراپنے ملک کے اندرونی معاملات میں ہندوستان کی ناجائز مداخلت کو رد کردیا ہے یوں بھارت کو اس معاملے میں منہ کی کھانی پڑرہی ہے۔

ساری دنیا نریندرمودی کے ماضی کے سیاہ کارناموں اور’آرایس ایس‘ سے وابستگی  سے واقف ہے۔ اب جب کہ وہ بھارت کے پردھان منتری ہیں تو ان کی شہ پاکرشدت پسند  ’ہندتوا‘ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے نکل آئے ہیں۔ جنونی ہندوؤں نے نچلی ذاتوں اوراقلیتوں کا جینا محال کردیا ہے۔ اقلیتوں کےلئے تعلیم، روزگارکا حصول بھی مشکل ہوتا نظر آرہاہے اس تناظر میں بھارتی وزراء کی ہرزہ سرائی اور مودی کی معنی خیز خاموشی بہت کچھ کہ رہی ہے۔ دلتوں کی مصائب اوران پر ہونیوالے مظالم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ انکی جان،مال عزت سب داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ چرچ  پرحملوں میں اضافہ اور ان کو جلانے کے علاوہ عیسائیوں کو زبردستی تبدیلیٔ مذہب پر مجبور کیا جارہا ہے۔

مسلمانوں پر عرصہ حیات شدت پسند  ہندوؤں نے پہلے ہی تنگ کررکھا ہے اب نئی افتاد گائے کے گوشت کی صورت ان پر ٹوٹ پڑی ہے۔  ایک بے گناہ مسلمان محض گائے کا گوشت کھانے کے شک میں جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھاجبکہ تجزیاتی رپورٹ کیمطابق گوشت بکرے کا تھا۔ ابھی لوگ سیکولر انڈیا کی اس مکروہ شکل پر ہی حیران ہورہے تھے کہ جنونی  تنگ نظر ہندوؤں نے ایک مسلمان ٹرک ڈرائیور کو گائے اسمگلنگ کے شبے میں تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتاردیا۔  اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں اسی مسئلے پر کافی فساد  برپا ہوا اور نوبت کٹھ پتلی اسمبلی میں انتہا پسند اراکین کے مسلم رکن پر تشدد تک پہنچی۔

اس شدت پسندی اور پر تشدد پاگل پن کیخلاف بھارت کےاپنے اندر سے ردعمل سامنے آیا ہے اور بہت سے بھارتی لکھاریوں نے حکومت کی طرف سے دئےگئے اعزازات احتجاجاً واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پچھلے دنوں سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی بھی اسی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھی۔’مسلمان ہو تو پاکستان جاؤ‘۔ ’بھارت میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت کھانا بھولنا ہوگا‘ ایسے دھمکی آمیز بیانات حکومتی وزراء کے منہ سے مضحکہ خیز لگتے ہیں لیکن پھر بھی روز بھارتی نیتا یہی گردان کرتے ہیں۔ حیران کن طور پر بھارت میں ہونیوالی اس انتہاپسندی پر دنیاخاموش ہے۔ شاید اسلئے کہ یہاں  بیچنے کےلئے ’شدت پسند مسلمان‘ کا مصالحہ نہیں ہے یا شاید اسلئے کہ ایک ارب سے زائدآبادی پر مشتمل اس تجارتی منڈی کیخلاف بولنا مشکل ہے۔

ایک دہائی پہلے جس بی جے پی نے بھارتیوں کو سپر پاور بننے کا خواب دکھایا تھا وہی بی جے پی مودی کی صورت میں دائیں بازو کی انتہائی شدت پسند مذہبی جنونیت پرمبنی سیاست کو مضبوط کررہی ہے۔ بیرونی چپقلش اوراندرونی انتشارہمیشہ ترقی کا راستہ روکتے ہیں۔ انڈیا کے لوگ خود ووٹ دیکر جانتے بوجھتے مودی کو اقتدار میں لائے ہیں۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں یا تو پورا بھارت ہندتوا اور مذہبی انتہا پسندی کا حامی ہے یا پھر ترقی کے خواب کے دام میں آکر بھارتیوں نے اپنی آنکھیں اورکان بند کر لئے۔ انہوں نے مودی کے گجرات ماڈل کو  تو دیکھا لیکن اسی مودی کے اسی گجرات میں سسکتی انسانیت کو نظراندازکرگئے۔

ایک شخص قوم کی زندگی سنواردیتا ہے یا بگاڑدیتا ہے، نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار، اپنے سیکولر تشخص پرنازاں بھارت ، کو کہاں لے جاتے ہیں یہ تووقت بتائے گا۔ لیکن فی الوقت شائننگ انڈیا  گائے کے گوشت میں پھنس کررہ گیا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں