”کچھ محسوس کیا تم نے؟“
” نہیں!! کیوں کیا ہوا؟“
”ابھی ابھی کچھ چکر سے آئے ہیں….ایسا لگا جیسے زلزلہ آیا ہے۔“
”نہیں کچھ نہیں ہوا…. تمہارا وہم ہوگا۔“
”تم میری ہر بات کو وہم کا نام کیوں دے دیتے ہو؟“
” اس لیے کہ تمہیں ہر بات میں کچھ نہ کچھ محسوس ہونے لگتا ہے۔“
” محسوس کرنا کیا کوئی بری بات ہے؟“
” نہیں بری بات آپ کے لیے نہیں ہمارے لیے ہے۔ “
”تم جو بھی محسوس کرتے ہو ،تمہاری بلا سے …. کرتے رہو…. ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
” وہ کیوں؟“
”اس لیے کہ تم الٹی سیدھی خبریں پتا نہیں کہاں سے سن کر آجاتے ہو اور پھر مجھے سناتے ہو۔ اب تم کچھ بھی کہو مجھے تمہاری بات پر یقین نہیں۔“
” میری بات کا یقین کرو …. ابھی ابھی زلزلہ آیا تھا۔“
” آیا ہوگا …. مجھے کیا؟“
” میں زلزلے کی بات کررہا ہوں ، حکومت کے آنے جانے کی نہیں۔“
”کیا فرق پڑتا ہے …. روز روز مرنے سے بہتر ہے ایک روز ہی مرجائیں ۔“
”یار اتنی بے حسی اور ناامیدی اچھی نہیں ہوتی۔“
”کس نے کہا کہ ناامید ہےں….روز کسی نہ کسی سانحہ یا حادثے سے گزرتے ہیں اور اپنوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں ، غیرت مند والدین اپنی بہو بیٹیوں کی غیرت کا جنازہ اٹھاتے ہیں اور پھر روزمرہ کی طرح چلنے لگتے ہیں۔ اب اگر زلزلے نہ آئیں تو کیا من و سلویٰ اترے گا۔“
”ٹی وی لگاؤ،
ضرور وہاں کوئی بریکنگ نیوز چل رہی ہو گی“
” یہ بریکنگ نیوز سن سن کر ہی توہم بریک ہو گئے ہیں…. کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔روز شیر آتا ہے اور کسی نہ کسی کو موت کے منھ میں لے جاتا ہے اور ہم لوگ بے حسی کی تصویر بنے اپنے اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔“
” میڈیا کا کام خبر دینا ہے اور اگر وہ خبر نہیں دے گا تو کیا کرے گا؟“
”خبر ضرور دے لیکن ہر خبر کو بریک نہ کرے …. ورنہ خبریں بریک ہو ہو کر ہمارے دل و دماغ کو بریک کردیں گی۔ دن میں ایک بار کہو کہ شیر آگیا تو میں یقین کروں گا لیکن اگر تم صبح دوپہر شام شیر آگیا کا شور مچا ؤ گے تو پھر تمہاری بات پر کون یقین کرے گا!!“
”کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو لیکن زلزلہ کون سا روز روز آتا ہے…. تمہیں میری بات کا یقین کرنا چاہیے ۔“
” میں یقین کربھی لوں تو کیا فرق پڑتا ہے…. اپنی بات کا یقین عوام کو دلا ؤ۔“
” عوام کو یقین دلانا بہت مشکل ہے…. ان سے اتنی بار تبدیلی ،انقلاب اور روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر دھوکا دیا گیا ہے کہ اب وہ کسی کی بات پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔“
” پھر حکومت کو اپنی بات کا یقین دلا دو۔“
” وہ تو اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ کچھ بھولی اور سادہ عوام تو پھر بھی ہماری بات پر یقین کرلے لیکن حکومت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
”ایک طریقہ ہے ان کو یقین دلانے کا“
”اور وہ کیا؟“
”بس بریکنگ نیوز چلانا پڑے گی۔پھر دیکھو وہ کس طرح نوٹس لیتے ہیں۔“
” لیکن میں بریکنگ نیوز کے سخت خلاف ہوں۔“
” تو پھر محسوس کرتے رہو زلزلے کے جھٹکے…. کوئی یقین نہیں کرے گا تمہاری بات کا…. “
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔