The news is by your side.

اچھی کرکٹ کو سراہنا چاہئے

پاکستان ٹیم اپنی غیر معمولی پرفارمنس کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے کیونکہ پاکستان ٹیم کے متعلق کچھ بھی کہنا ممکن نہیں. پاکستانی کرکٹر کب کیا ریکارڈ بنا ڈالیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ پاکستان اور انگلینڈ تین سال بعد ایک بار پھر دبئی میں مدمقابل ہیں جہاں پاکستان نے زبردست مقابلے کے بعد انگلینڈ کو تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں 2 ۔ 0 سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کرلی۔

دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا پہلا ٹیسٹ 13 اکتوبر سے 17 اکتوبر 2015 تک کھیلا گیا جو سنسنی خیز مقابلے کے بعد ڈرا ہوگیا۔ دوسرا ٹیسٹ 22 سے 26 اکتوبر تک کھیلا گیا جو آخری دن دلچسپ مراحل میں داخل ہوا مگر یاسر شاہ اور وہاب ریاض کی بالنگ اور بیٹنگ میں مصباح الحق ، یونس خان ، اسد شفیق کی بہترین پرفارمنس کی بدولت پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میں فتح حاصل کی۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تیسرا اور آخری ٹیسٹ 1سے 5 نومبر تک کھیلا گیا اور اس میں بھی دونوں ٹیموں کی جانب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا اور دونوں ٹیسٹ میچز کی طرح آخری ٹیسٹ بھی میچ کے آخری روز تک گیا اور پھر دلچسپ مراحل کے بعد پاکستانی باولرز نے اپنی شاندار پرفارمنس کی بدولت انگلینڈ کو دن میں تارے دکھادیے اور آخری ٹیسٹ میچ کے آخری روز انگلینڈ 284رنز کے تعاقب میں 156پر ڈھیرہوگئی اور یوں پاکستان تین ٹیسٹ میچز کی سیریز دو صفر سے جیت گیا۔

پاکستان کی جانب سے بیٹنگ میں یونس خان ، محمد حفیظ ، شعیب ملک ، مصباح الحق ، اسد شفیق نے نمایاں کارکردگی دکھاکر پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور بالنگ کے شعبے میں وہاب ریاض ، یاسر شاہ ، ذولفقار بابر اور شعیب ملک نے عمدہ پرفارمنس دی۔ انگلینڈ کی جانب سے بیٹنگ میں کپتان ایلسٹر کک ،معین علی ، این بیل ، جوے روٹ ، بیراسٹو ، نے سیریز میں نمایاں کردار ادا کیا ، بالنگ کے شعبے میں انگلینڈ کی جانب سے جیمس اینڈرسن ، عادل راشد ، معین علی ، شمیت پٹیل ، ووڈز ، نے اچھی بالنگ کا مظاہرہ کیا۔

پاکستان نے تین سال قبل 2012 میں بھی انگلینڈ کو اسی طرح ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی اور اب 2015 میں ایک بار پھر انگلینڈ کو دبئی کے گراؤنڈ میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیریز سے قبل پاکستان ٹیم کو بالنگ کے شعبے میں کمزور سمجھا جارہا تھا مگر پاکستان نے تمام شعبوں میں حیران کن پرفارمنس دے کر سب کو حیران کردیا۔ پاکستان کے لیے یہ سیریز کافی یادگار رہی جس میں پاکستانی کھلاڑیوں نے کئی ریکارڈز اپنے نام کیے یونس خان نے پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز اپنے نام کیا اور 9000 سے زائد رنز بنانے والوں میں شامل ہوئے اور پھر 103ویں ٹیسٹ میں 31ویں سیریز اسکور کرکے دنیا کے ٹاپ سینچری میکرز میں شامل ہوگئے، اس کے علاوہ 5 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپس آنے والے شعیب ملک نے اپنے کیریئر کے 35 ویں ٹیسٹ میچ میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا آتے ہی پہلی اننگ میں 245رنز اسکور کرکے سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے میں کامیاب ہوئے مگر اسکے بعد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھاسکے جس پر تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر تنقید اس وقت حوصلہ افزائی اور خراج تحسین میں تبدیل ہوگئی جب ملک نے تیسرے میچ کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمینٹ کا اعلان کردیا اور اپنے آخری ٹیسٹ میچ میں اپنی بہترین باولنگ سے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کرکے بہترین انداز میں ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہا۔

شعیب ملک نے تیسرے ٹیسٹ میں 7وکٹیں لیں اور مجموعی طور پر 3 میچوں میں 11وکٹیں لے کر بہت خوب اپنے ٹیسٹ کیریئر کااختتام کیا۔ مصباح الحق نے تینوں ٹیسٹ میچز میں عمدہ اننگز کھیلیں ، اس طرح انگلینڈ کے خلاف سیریز پاکستان کے لیے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگئی۔ دو ٹیسٹ میچز میں شاندار پرفارمنس دکھانے والے پاکستانی لیگ اسپنر یاسر شاہ مین آف دی سیریز قرار پائے یاسر شاہ نے 15 وکٹیں لے کر نہ صرف اپنے مداحوں میں اضافہ کرلیابلکہ کچھ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یاسر شاہ پاکستان کے شین وارن ہیں۔

ایسے ماحول میں جب پاکستان کے ہوم گراؤنڈز میں کرکٹ کے دروازے بند ہیں اسی دوران ایک بڑی ٹیم کو ایسی شکست دینا دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ پاکستان ٹیم دنیا کی ٹاپ بہترین ٹیموں میں سے ہے جو کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتی ہے اور پاکسان ٹیم اور پاکستانی کھلاڑیوں کو کسی بھی فورم پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بنا پاکستان کے کرکٹ کی دنیا ادھوری ہے خواہ کوئی کرکٹ سیریز انکے ہوم کراوڈ کے درمیان ہو یا کسی نیوٹرل وینیو پر ہو۔

پاکستان نے ٹیسٹ سیریز میں انگلینڈ کو شکست دے کر 5 پوائنٹس حاصل کرلیے جس کے بعد عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان دس سال بعد دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ کسی سیریز کے بعد نجی چینلز پر کرکٹ ایکسپرٹس بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے جو ایک اچھا ٹرینڈ ہے کیونکہ چاہے ہمارا فیورٹ کھلاڑی پرفارم کرے یا کوئی اور ہمیں اچھے کھیل اور کارکردگی کی تعریف کرنی چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں