کہتے ہیں کہ سالگرہ کا دن جشن کا دن ہوتا ہے ، ولادت کی خوشی منانا کوئی گناہ نہیں بلکہ سنت ہے، مگر یہ سوچنے سے ڈر لگتا ہے کہ ہم سال بھر میں کی گئی اللہ کی نافرمانیوں اور آئندہ کے لئے نئے آغاز کا جشن مناتے ہیں ۔ہم گزشتہ سال بھر کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ایک نئے سال میں داخل ہوتے ہیں ۔۔۔ توبہ و استغفار کیلئے نہیں ۔۔۔ بلکہ اس گھٹڑی میں مزید اضافے کیلئے۔۔۔ ہماری آخرت کی تیاری کا سامان۔۔۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ قیامت کے روز ہم کیسے پیش ہوں گے۔
میں آج اپنی پچیسویں سالگرہ منارہا ہوں۔شرح اموات دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی 50سے 60سال کی عمریں لے کر آئے ہیں۔گویا میری عمر کا نصف بیت گیا۔ باقی زندگی کا مالک ہی جانتا ہے کہ کتنا اور جینا ہے۔ مگر آج کے دن میں کچھ اعتراف اور کچھ سوال لے کر آیا ہوں، اعتراف کی ہمت اور سوال کی جرات مجھے میرا ضمیر دیتا ہے۔
میرا پہلا اعتراف یہ ہے کہ میں ایک بے حس قوم کا بے حس شہری ہوں، میں قانون کو اپنی جوتی پر رکھتا ہوں۔۔۔ ٹریفک اشارے توڑنا میرا معمول اور وارڈنز کی جیبیں بھرنا میرا مشغلہ ہے ۔۔۔ میں اپنے کام نکلوانے کیلئے رشوتیں دیتا آیا ہوں۔۔۔ سفارش کی سیڑھی پر بار بار قدم رکھ کر کسی کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کرچکا ہوں ۔۔۔۔ میں راشی ہوں، میں ڈاکو ہوں۔۔۔ اور میں قانون شکن ہوں۔
میرا دوسرا اعتراف یہ ہے کہ میں اپنی ہوس کا پجاری ہوں ۔۔۔ مجھے کبھی دولت کھنچتی ہے۔۔۔ تو کبھی شہرت ۔۔ دنیا کے رنگوں میں یوں گم ہوں کہ خالق حقیقی سے ناآشنا سا ہوگیا ہوں ۔
میرا تیسرا اعتراف یہ ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔۔ نماز کا وقت۔۔۔ اللہ کی تسبیح کا وقت۔۔۔ مخلوق خدا کا وقت ۔۔۔ میں مصروف ترین آدمی ہوں۔ خبریں سب سے پہلے بریک کرنے میں مصروف۔۔۔ خبر میں سنسنی لانے میں مصروف۔۔۔ اپنا کیرئیر بنانے میں مصروف۔۔ ۔ اپنے Bossکیساتھ ہیلو ہائے بڑھانے میں مصروف، ہاں میں مصروف ترین آدمی ہوں ، میرے پاس وقت نہیں ہے۔
میرا چوتھا اعتراف یہ ہے کہ جھوٹ بولتا ہوں ۔۔۔ والدین سے جھوٹ ۔۔۔ بہن بھائیوں سے جھوٹ ۔۔ ۔ میں اکثر اپنی ماں سے یہ جھوٹ بولتا ہوں کہ ’’امی جی میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں‘‘۔۔۔ میں اپنے ابو سے یہ جھوٹ بولتا ہوں کہ ’’ابو جی مجھے پیسے نہیں چاہییں ‘‘۔۔ میں اپنے بہن بھائیوں سے یہ جھوٹ بولتا ہوں کہ ’’ابھی میری تنخواہ نہیں آئی ‘‘ ۔۔۔۔ میں اپنے دوستوں سے یہ جھوٹ بولتا ہوں کہ ’’ یار میں بہت مصروف ہوں ‘‘ ۔۔۔۔ رشتہ داروں سے یہ جھوٹ بولتا ہوں کہ ’’ تم لوگ بہت یاد آتے ہو‘‘ ۔۔۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر محب وطن بننے کی جھوٹ بولتا ہوں اور ۔۔۔۔۔ اپنے ضمیر سے یہ جھوٹ بولتا ہوں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘۔
میرے اعتراف سن کر اپنے اندر مت جھانکیے ۔۔۔ یہ میرا چہرہ ہے آپکا نہیں ۔۔۔۔ یہ میرا آئینہ ہے آپکا نہیں ۔۔۔ یہ میں ہوں آپ نہیں ۔
میرے سوال یہ ہیں ۔۔۔ میں قانون شکن ہوں‘ تو کیا میرے قانون ساز قوانین پر عمل کرتے ہیں ؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ میرے منصفوں کا راشی ہونا، مجھے رشوت دینے پر مجبور کرتا ہے؟ میرے راہبر سفارشی نہ ہوتے تو کیا مجھے سفارش کی عادت پڑتی؟ کیامجھے دولت کی جستجو میرے ملاؤں ‘ شیوخ اور راہنماؤں سے نہیں ملی؟ میرے پاس نماز کیلئے وقت نہیں اس کا ذمہ دار میں خود ہوں مگر کیا میرے نام نہاد مسلم حکمرانوں نے ’’نماز‘‘ کے رواج کیلئے کوئی ایک قدم اٹھایا؟ میں معترف ہوں کہ میں جھوٹ بولتا ہوں لیکن کیا میرے منصف سچے ہیں؟ میرے لیڈر سچے ہیں؟ سیاست دان سچے ہیں؟ قانون دان سچے ہیں ؟ وزیراعظم سمیت کابینہ میں کتنے سچے ہیں ؟۔
مگر میرے سوال صرف میرے نہیں آپ کے بھی ہیں ۔ کیونکہ ہم ہمیشہ سوال کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور جواب کبھی اپنے آپ سے بھی نہیں لیتے۔ ہمارے ارد گرد سوالات کی بوچھاڑ ہے۔۔۔ سوالات ہی سوالات ۔۔۔ ٹی وی کے پروگراموں میں سوال۔۔۔ زندگی کے امتحانوں میں سوال۔۔۔ گلی محلے کی بیٹھکوں میں سوال ۔۔۔ حجام کی دکانوں میں سوال۔۔۔ میدانوں میں سوال، کھلیانوں میں سوال۔۔۔ لیکن جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ بحرحال۔۔۔۔؟
آج میں اپنی زندگی کی سلور جوبلی پر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی خطاؤں کا قصور وار حکمرانوں کو نہیں ٹھہراؤں گا۔ حکمرانوں ، سیاست دانوں ، راہبروں اور قانون ساز وں کو اس وقت تک تنقید کا نشانہ بناتے رہیں گے جب تک وہ سچے اور کھرے نہیں بن جاتے ، لیکن ان پر تنقید کیساتھ ساتھ اپنے گریبان میں میں جھانکوں گا۔