The news is by your side.

خودبخود ٹوٹ کر گرتی نہیں زنجیر کبھی

حالات بدل سکتے ہیں لیکن ہم بدقسمتی سے خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں جب کوئی خود کو بدلنے کیلئے تیار ہی نہ ہو تو آپ اس کی حالت بدلنے کیلئے کچھ نہیں کرسکتے سوائے اس کے حق میں دعا کرنے کہ ﷲ اسے ہدایت دے۔ لیکن ﷲ بھی ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو خود ہدایت حاصل نہ کرنا چاہیں ہم نے اپنی آنکھیں، اپنے کان اور اپنے دل کے دروازے بند کر رکھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ کوئی ہماری سوچ اور ہمارے فرسودہ خیالات کو بدل نہ دے ہمارے اندر اس قدر حوصلہ نہیں کہ ہم کسی دوسرے خیال اورسوچ کو تحمل کے ساتھ سن بھی سکیں۔

حق وباطل کی نظریات کی جنگ ازل سے ہے اورتاابد جاری رہے گی اس جنگ کا آغاز ابلیس نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ تو مجھے موقع دے کہ میں آدم کی اولاد کو بہکاؤں اورﷲ نے اس پراسے مہلت فراہم کی اور ہماری آزمائش کے دن شروع ہوئے لیکن اﷲ نے ہمیں پیدا کرکے ایک لمحہ کیلئے بھی چھوڑ نہیں دیا وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور ہمارے دل میں اس کا گھر ہے۔ وہی دل جو کبھی کوئی غلط کام کرے تو فوراً اسے ملامت کرتا ہے۔

دل سے نکلی ہوئی دعا عرش کے کونوں کونوں تک کوہلاسکتی ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِمنزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

حضرت سلمان فارسیؓ نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جن کا مذہب آتش کو پوجنا تھا لیکن اُن کا دل حق کی تلاش میں تھا۔ اسی تلاش نے انہیں ایک عیسائی پادری سے ملا دیا۔ جس کے پاس وہ ایک عرصہ تک رہے اور اس کی خدمت کرتے رہے لیکن حق کی تلاش اور جستجو جاری رکھی۔ مرتے وقت پادری نے ان کی جستجو کو دیکھ کر ان کو مکہ کی طرف جانے کو کہا اور انہیں ایک نبی کی آمد کی خوشخبری دی۔ اس طرح حضرت سلمان فارسیؓ مکہ پہنچ کر اپنی منزل سے ہمکنار ہوئے۔

دوسری طرف ابوجہل کی مثال ہے جو خوش قسمتی سے اسی نبی حضرت محمد ﷺ کا سگا چچا تھا۔ نبیؐ کی پیدائش پر بڑھ چڑھ کر خوشی منائی لیکن جب بات حق پرعمل کرنے کی آئی تو آپؐ کا دشمن بن گیا۔ وہی ابوجہل جو چھپ چھپ کر آپ کی تلاوت کو سنتا تھا اور کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ آپؐ جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے لیکن میں قیامت تک ان کو نہیں مانوں گا کہ ان کے ماننے سے ہماری گدی جاتی رہے گی۔ وہی ابوجہل کہ جس کیلئے خود نبی پاکؐ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ یااﷲ تو اسے یا عمربن خطاب میں سے کسی ایک کو مسلمان کردے۔ لیکن یہاں بھی بدنصیبی ہی ان کے آڑے آئی اور وہ تباہ و برباد ہو کر رہا اور اس کیلئے نبی کا چچا ہونا بھی کسی کام نہ آیا۔

سوچیں اور فیصلہ کریں کہ کہیں ہم نے بھی اپنے کان ، آنکھیں اور دل بند تو نہیں کر رکھے۔ ہم نے کبھی حق کی تلاش اور جستجو کی ہے کہ جس کیلئے اﷲ تعالیٰ ہمیں قرآن میں بار بار متنبہ کرتا ہے۔ کبھی مچھر کی مثال دے کر، کبھی اونٹ کی ، کبھی کائنات کی اور کبھی خود اپنے آپ کو دیکھنے کی۔ ہمارے پاس سوچنے کیلئے بہت کچھ ہے لیکن نہیں ہے تو اپنی آخرت کیلئے نہیں ہے کہ جہاں ہم نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہنا ہے۔چند روزہ زندگی کیلئے سو برس کا سامان جمع ہے لیکن پل کی خبر نہیں ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ قبل اس کے کہ دل ہمارے خلاف قیامت کے روز گواہی دے ہمیں اس کی سننا چاہیئے اور اپنی ضمیر کی عدالت میں ہر سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کیلئے جستجو اور ہدایت کی دعا کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

حق و باطل کو ہر زاویئے اوررخ سے دیکھئے اورپھراس کے بعد فیصلہ کیجئے۔ تصویر کا ایک رُخ دیکھ کر کسی تصویر کے اچھے یا برا ہونے کی غلطی ہرگز نہ کیجئے۔ اسی طرح جیسے ایک چور کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلینے کے باوجود سزا نہیں سنائی جاتی بلکہ اس کا موقف بھی سنا جاتا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ کسی کے دباؤ میں آکر اس نے ایسا کیا ہو؟ اس کا فیصلہ عدالت کرتی ہے۔ آپ بھی اپنے دل و دماغ کی عدالت لگائیے اورہربات کی تحقیق کیجئےویسے بھی علم مومن کی گم گشتہ میراث ہے اسے جہاں سے بھی ملے حاصل کیجئے۔ اس دنیا کا کوئی انسان نہ مکمل طور پر شیطان ہے اور نہ مکمل طور پر فرشتہ اس لیے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نہ دیکھیں کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھیں کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر آج آپ نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا تو کل آپ کے حالات کو بدلنے میں بھی کچھ دیر نہیں لگے گی کیونکہ بقول شاعر

خودبخود ٹوٹ کر گرتی نہیں زنجیر کبھی
بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی

شاید آپ یہ بھی پسند کریں