’’ ایک بار پھر بلدیاتی الیکشن میں بہت سے نامعلوم کھڑے ہوگئے ہیں۔‘‘
’’لیکن الیکشن کے بعد تو معلوم چل جائے گا کہ اس کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے؟‘‘
’’مشکل ہے ،ابھی تک تو صرف یہی معلوم چل سکا ہے کہ ان کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے۔‘‘
’’کیا یہ نامعلوم سیاسی جماعت ہے ؟‘‘
’’ جماعت تو سب کو معلوم ہے لیکن اس کا تعلق سیاسی ہونے پر شبہ ہے ، کیونکہ اسے نامعلوم لوگوں نے بدنام کر دیا ہے۔‘‘
’’ تو پھر یہ جماعت ایسے نامعلوم لوگوں سے چھٹکارا کیوں نہیں حاصل کرتی؟‘‘
’’انہیں ڈر ہے کہ اگرچھٹکارا حاصل کرلیا تو یہ جماعت ہی کہیں ختم نہ ہوجائے۔‘‘
’’ انہیں عوام کے اعتماد پر بھروسہ کرنا چاہیے اور جلد از جلد ان نامعلوم افراد سے دستبرداری کا اعلان کرنا چاہیے ۔‘‘
’’اعلان دستبرداری تو کب کا کررہے ہیں لیکن کوئی یقین ہی نہیں کرتا۔‘‘
’’ یہ تو کھلی ناانصافی ہے ۔‘‘
’’ ناانصافی تو معلوم لوگوں کے ساتھ ہورہی ہے اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے۔‘‘
’’ جب یہ بات سب کو معلوم ہے تو پھر اس بار الیکشن میں تبدیلی ضرور آئے گی۔‘‘
’’ مشکل ہے، جب تک نامعلوم شہر میں موجود ہیں ، تبدیلی نہیں آسکتی۔‘‘
’’شاید اسی لیے رینجرز والے کہہ رہے تھے کہ آپریشن کروا لو یا الیکشن۔‘‘
’’آپریشن کروا کروا کر تو شہر کی حالت آج یہ ہوگئی ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔‘‘
’’تمہارا مطلب آپریشن سے شہر میں امن نہیں آیا۔‘‘
’’ یہ سب وقتی امن ہے ، مرض کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا ورنہ یہ ناسور کینسر کی طرح پھر بڑھ سکتا ہے۔بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔‘‘
’’ تو تمہارے خیال میں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’ یہ لفظ ’چاہیے ‘کو ڈکشنری سے نکال دینا چاہیے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’ اس لیے کہ کوئی بھی کام اس ’چاہیے‘ کی وجہ سے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتا۔ جو کرنا ہے فوراً کریں۔ چاہئے کا وقت ختم ہوگیا۔‘‘
’’ تو پھر کیا کریں؟‘‘
’’ آپریشن اور الیکشن دونوں کو ساتھ ساتھ چلنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ پورا پلازہ کھڑا ہوجائے اور پھر اچانک خیال آئے کہ یہ کیسے قبضہ کی زمین پر کھڑا ہوگیا؟ کوئی ان سے پوچھے کیا یہ راتوں رات کھڑا ہوگیا ہے یا کسی جن نے اسے کوہ قاف سے یہاں رکھ دیا ہے۔‘‘
’’ تمہارا مطلب ہے انتخاب اور احتساب دونوں کو وقت پر ساتھ ساتھ ہونا چاہیے ۔‘‘
’’ پھر وہی چاہیے؟‘‘
’’ مطلب ساتھ ساتھ ہوں۔ اس طرح معلوم اور نامعلوم میں فرق خود ہی واضح ہوجائے گا۔‘‘
’’دیکھو تبدیلی تم سے ہے۔ اگر تم آج بھی باہر نہ نکلے تو پھر یہ نہ کہنا کہ معلوم نہیں تھا کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔‘‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔