The news is by your side.

 کراچی میں ٹریفک کے سنگین مسائل اور ان کا حل

میں چند دن قبل دفتر کی جانب آرہا تھا کہ گارڈن سگنل کے قریب میری نظرموٹر سائیکلوں کو لفٹ کے لئے اشارہ کرنے والے ایک ٹریفک اہلکارپرنظر پڑی، اس ٹریفک اہلکارکو اکثر میں نے صدر کے ایک کے ٹریفک سگنل پرٹریفک کنٹرول کرتے دیکھا ہے لیکن اس کے نام سے واقف نہیں تھا اورنہ ہی کبھی بات کرنے کا موقع ملا۔ اس ٹریفک اہلکار کو لفٹ نہیں ملی تو میں نے فوراً گاڑی روک دی، وہ گاڑی میں بیٹھا تواس کا پہلا جملہ تھا ’’اللہ تیرا شکر‘‘، اسی دوران میں نے سوچا اس سپاہی سے ٹریفک کے مسائل کے حوالے سے کچھ بات کروں۔

میں نے سب سے پہلے اس سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے اورآپ کتنے عرصے سے پولیس میں ہیں۔ سپاہی نے جواب دیا کہ ’’میرا نام رحیم ( فرضی نام) ہے اور 24سال سے ٹریفک پولیس میں ہوں‘‘۔ پھر میں نے سوال کیا کہ ٹریفک کی صورتحال دن بدن ٹھیک ہورہی ہے یا خراب یعنی ٹریفک جام اوربےھنگم کیوں ہے؟جواب تھا بہت خراب ہورہا ہے وجہ پوچھی میں نے تو اس نے کہا کہ سی این جی رکشوں نے شہر کی ٹریفک خراب کردی ہے جس کا جہاں دل کرتا ہے رک جاتا ہے اس کو پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ پیچھے گاڑیاں کھڑی ہیں یا ٹریفک جام ہورہا ہے۔

میں نے دوسری وجہ پوچھی رحیم کا جواب تھا24سال پہلے موٹر سائیکل بہت مہنگی تھی پر کوئی نہیں خریدتا تھا اب1500روپے دیکر کوئی موٹر سائیکل حاصل کرلیتا ہے ۔میں نے پوچھایہی وجوہات ہیں یا اور بھی تو جواب تھا نہیں سڑک پر پتھاروں کی وجہ سے بھی ٹریفک کا نظام خراب ہے۔اب رحیم نے کچھ دل کی بات کی کہ آج کل پڑھے لکھے کوگوں کا زمانہ ہے ہر کوئی بدتمیزی کرتا ہے جس کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر روکو اس کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ہر کوئی کہتا ہے وردی اتروادوں گا۔ایسا لگتا ہے جیسے یہ وردی انھوں نے ہی دی ہو۔اوپر سے سر ہمارے افسران بھی یہی کہتے ہیں تم لوگ غلط ہو تو بس پھر جیسا چل رہا ہے چلا رہے ہیں۔

اب تک رحیم  یہ نہیں جانتا تھا کہ میں اے آروائی نیوز کا رپورٹر ہوں پھر میں نے اس سے پوچھا کہ اب کی ٹریفک اور24سال پہلے کی ٹریفک میں کتنا فرق لگتا ہے اس نے کہا بہت فرق ہے۔ہم صدر پہنچ چکے تھے تو میں نے خود سے پوچھا آپ تو اس سگنل پر ڈیوٹی کرتے ہیں اس نے کہا جی بالکل لیکن ابھی چوکی پر حاضری لگانی ہے تو پہلے فوراًچوکی جاوں گا آپ مجھے یہیں اتاردیں میں نے اب اس کو بتایا کہ میرا آفس آپ کی چوکی کے پاس ہے اور میں اے آروائی نیوز کا رپورٹرہوں۔ اس نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ ایک سڑک پرٹریفک کنٹرول کرنے والے سپاہی سے زیادہ اچھاٹریفک جام اور خراب ہونے کی وجہ شاید افسران نہیں بتا سکتے، تو اس نے کہا بالکل آپ نے صحیح کہا اب پولیس چوکی کے سامنے پہنچ گئے تو میں نے اس
سے ایک تصویر لینے کو کہا اس پر رحیم نے انکار کردیا۔

دفترآکر جب24سال پہلے اور اب کی ٹریفک کے حوالے سے ایک سپاہی کی بات چیت لکھنا شروع کی تو ایک سوال ذہن میں آیا کہ یہ میں نے رحیم سے نہیں پوچھا اوروہ سوال تھا کہ 24سالوں سے ان سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کرنے والا خود یہ جانتا ہے کہ1500روپے دے کرموٹرسائیکل خریدی جاسکتی ہے تو خود لفٹ لے کرکیوں ڈیوٹی پر آتا ہے، موٹر سائیکل کیوں نہیں خرید سکتا۔

اس مختصر سی بات چیت میں یہ بات سمجھ آئی کہ لوگوں کے رویے ٹھیک ہوں اوروہ قوانین پرعمل کرلیں اور ایک سپاہی کی بھی عزت کریں، حکومت رکشوں اور گاڑیوں کی پالیسی بہتر بنائے، پولیس افسران اپنے سپاہیوں سے بھی ایک دن ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کرٹریفک کی بہتری کے لئے بات چیت کریں اورحل پوچھیں تو ٹریفک کے گھمبیر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں