The news is by your side.

صاحب کی واہ واہ ہونی چاہئیے

پولیس کا کام ویسے تو عوام کی مدد کرنا ہے لیکن سب سے پہلے پولیس کا کام جرم اور جرائم پر قابو پانا ہے ، سندھ پولیس کے افسران جرم اور جرائم پر قابو پانا چاہتے ہیں یا نہیں اس کا تو مجھے علم نہیں ہاں وہ ایک بات ضرور چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان کی واہ واہ ہونی چاہیئے اب چاہے وہ پولیس مقابلے کرکے ہو میڈیکل کیمپ لگا کر ہو افطارپارٹیاں کروا کے ہو یا رمضان میں راشن بانٹ کر ہو۔

اب کہنے والے یہ کہیں گے کہ پولیس کے اچھے کاموں پر بھی یہ تنقید شروع کردیتے ہیں تو جناب میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اچھے کام پر اس کی تعریف ضرور ہونی چاہئیے لیکن صاحب کی واہ واہ میں اور اصل کام میں فرق ہے۔ ان دنوں راؤ انوار کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد سے پولیس میں افسران مقابلے کرکے واہ واہ حاصل نہیں کرسکے لیکن صاحب کی واہ واہ تو ہونی چاہیے تو ایس ایچ اوز نے ان دنوں صاحب کی واہ واہ کا بندوست کرہی لیا ہے اس کے لیے فری میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں اورکبھی افطاری بانٹی جارہی ہے۔

صاحب کی واہ واہ کے لیے بڑے بڑے بینرز بھی لگائے جاتے ہیں اور پھر صاحب کی دبنگ سی انٹری میں پولیس یہ عوامی خدمت سرانجام دیتی ہے میرا پہلا سوال یہ ہے کہ عوامی خدمت کے یہ کام کس کے پیسے سے ہوتے ہیں ؟ اگر یہ سندھ پولیس کے افسران سرکاری بجٹ سے کرتے ہیں تو اچھی بات ہے ۔

لیکن یہ عوامی خدمت کرتے وقت اپنے ساتھ کھڑے ان جوانوں کی آنکھوں کو اگر پڑھ لیں جو ان سے کئی سوالات کرتی ہیں جو کوئی صاحب نہیں پڑھتے وہ میں بتا دیتا ہوں صاحب میں ہیپاٹائِٹس کا مریض ہوں میرے پاس علاج کے پیسے نہیں صاحب پانچ سو روپے کی رشوت پر آپ نے ڈس مس کردیا تھا اور کہا تھا کہ آئندہ رشوت نہیں لینا لیکن یہ عوامی خدمت بھی تو آپ اپنے پیسے سے نہیں کررہے ہیں صاحب میرے گھر میں بھی راشن نہیں بچوں نے عید کے کپڑے نہیں خریدے لیکن یہ سب آپ میرے ہی ہاتھ سے کروا رہے ہیں کبھی میرا بھی سوچ لیجیے گا ۔

لیکن ایسا نہیں ہے کیوں کہ اس سے صاحب کی واہ واہ نہیں ہوگی یہ وہ ہی علاقے کے معزز ہوتے ہیں جو صاحب کی واہ واہ کے لئے خرچہ کرتے ہیں اور پھر پولیس کے سر پر ناچتے ہیں اگر اتنی ہی خدمت کرنے کا جذبہ ہے تو اپنے پیشے سے انصاف کریں یا اپنی جیب سے خرچہ کریں، اسلام میں ویسے بھی حکم ہے کہ اپنے قریب والوں کا تم پر پہلے حق ہے کافی دن سے صاحب کی واہ واہ کے لئے یہ خدمت کے کام دیکھ رہا تھا آج ان جوانوں کے چہرے پر سوالات دیکھے تو یہ سب لکھ دیا۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں