میں نے تقریباً آج سے نو سال پہلے اسی شہر سے کرائم رپورٹنگ کا آغاز کیا تھا۔ وہ کراچی آج کا کراچی جیسا نہیں تھا اکثر پولیس آفیسر ایماندار تھے کہیں کہیں چھوٹے لیول کے افسران کی کرپشن سے متعلق شکایات موصول ہوا کرتی تھیں کیونکہ میری بیٹ کرائم رپورٹنگ تھی اس لیے زیادہ تر واسطہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے افسران سے ہی پڑتا تھا اور پڑتا ہے۔
اس وقت میرے کیریئر کا آغاز تھا اور میں نے کم عمری میں صحافت میں قدم رکھا تھا تو اس لئے بہت سی چیزوں سے ناواقف تھا اور سیکھنے کا عمل جاری تھا اس وقت سندھ پولیس میں ذوالفقار چیمہ، حسین اصغر، سردار عبدالمجید دستی جیسے افسران ایس ایس پی یا دیگرعہدوں پر فائز تھے۔
پولیس میں احتساب کا عمل بھی تھا، محکمہ میں پی ایس پی افسران کا ایک خوف ہوا کرتا تھا، کرائم پر قابو پانا اور جرائم کا قلعہ قمع کرنا ہی اصل میں افسران کا ہدف ہوا کرتا تھا۔
اس دور میں اس طرح کی خبریں ملا کرتی تھیں کہ کسی تھانے کے ایس ایچ او یا اس کی ٹیم نے ملزم کے گھر والوں سے ملاقات اور مارپیٹ نہ کرنے کے پیسے لیے ہیں یا پھر پولیس کی سرپرستی میں کسی تھانے کی حدود میں جوئے کا اڈہ کھلوایا گیا ہے۔
اگر اس طرح کی خبر میڈیا پر آجائے تو افسران ایسے واقعات کی انکوائری فوری طور پر کیا کرتے تھے، جس طرز پرانکوائری کی جاتی تھی وہ آج کی انکوائریوں کی طرح بالکل نہیں ہوتی تھی۔
اس دور میں یہ بات زیادہ ڈسکس ہوا کرتی تھی کہ فلاں آفیسر کرپٹ ہے اس لیے ایسے افسران کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا، کچھ وقت اور گزرا دیگر معلومات اور شہر کی سمجھ آنے لگی، نئے پولیس افسران بھی آتے رہے صورتحال ہر بدلتے دن کے ساتھ تبدیل ہوتی رہی۔
دیکھتے ہی دیکھتے کئی جونیئر افسران کافی سینئِر بھی ہوگئے اوران میں سے آج اکثر کروڑ پتی ہیں، رشوت ایس ایچ او لیول سے بڑھ گئی ہے اور افسران اب براہ راست سسٹم چلانے لگے، وسیم بیٹر جیسے جوئے کا اڈہ چلانے والے سندھ پولیس چلانے لگے۔
اب وہ دور شروع ہوچکا تھا جب ہم محکمہ پولیس میں ایماندار افسر کو تلاش کیا کرتے تھے اور آج کوئی ایماندار افسر کا پتہ چلتا ہے تو ہم اس کی مثالیں دیتے ہیں اس کی بات کرتے ہیں اور ان چند ایماندار افسروں کا ایسا تذکرہ چھڑتا ہے کہ جیسے ایمانداری کوِئی انوکھی بات ہو۔
اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ میں گزشتہ روز فیس بک پر ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا کہ34کامن کے ایک ایس ایس پی ایماندار آفیسر ہیں انہوں نے سی ایس ایس میں ٹاپ کیا تھا لیکن جب وہ انٹرویو کے لیے گئے تو وہاں ان سے پہلا سوال یہ ہوا کہ آپ نے ٹائی کیوں نہیں لگائی؟ تو انہوں نےجواب دیا کہ میں ٹائی افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔
پوسٹ پر اسی طرح کی مزید باتیں ان سے متعلق لکھی گئیں تھِیں، اللہ ہی بہترجانتا ہے اب ان باتوں میں کتنی صداقت ہے۔ بہرحال اس پوسٹ کے نیچے بہت سے لوگوں کے کمنٹس تھے جو ان کی ایمانداری سے متاثر ہورہے تھے۔
میں اس وقت یہی سوچ رہا تھا کہ ایمانداری اور ایماندار افسران ہمارے پاس ناپید ہوگئے ہیں ہم ایمانداری اور کسی بھی ایماندار شخص کو آج ایسے تلاش کرتے اور اس کی بات کرتے ہیں جیسے کسی دور میں کرپٹ افسران کی کیا کرتے تھے۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایماندار افسر کی بات تو ضرور کرتے ہیں لیکن ایسے افسران کو درحقیقت صرف باتوں میں ہی پسند کرتے ہیں اور یہ سسٹم ایسے ایماندار افسران کو ختم کئے جارہا ہے۔
سندھ پولیس، پی ایس پی افسران اور رینکر افسران پر اور اپنے کرئیر کے ابتدائی دنوں پر مزید خیالات کسی دن لکھوں گا، خاص طور پر فروٹ منڈی کا سندھ پولیس کے افسران سے تعلق اور بلڈرز بننے والے افسران سے متعلق بھی بات ہوگی۔
آج صرف تلاش ہے ایماندار افسر کی بلکہ اس ایمانداری کی جس کا حلف اٹھا کر اور تنخواہ لے کر افسران اپنے کیریئر کا آغاز کرتے ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔