The news is by your side.

پاکستان میں خواتین کے حقوق کی پامالی – مسئلہ کس قدر سنگین ہے؟

حقوق نسواں آج کی دنیا کے اہم ترین معاملات میں سے ایک ہے اور اپنی نوعیت کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔اس کی سنجیدگی کا اصل مرکزو محور پاکستان ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دنیا میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کرہ ارض پر سب سے زیادہ ظلم و ستم کا شکارخواتین پاکستان میں ہیں اورایسا کرنے والے پاکستانی ہی ہیں ورنہ کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ کیا معاملات برتے جارہے ہیں کیوں کہ انہیں اپنے یہاں اس معاملے کا سنجیدگی سے علم ہے۔

بیسویں اور اکیسویں صدی کی خواتین کا یہ خواب ہے کہ انہیں مرد کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔ مزید اس سوچ میں نکھار یہ پیدا ہوا ہے اس معاشرے کو ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے جہاں عورت کا مرد پر انحصار کم سے کم تر ہوجائے۔ اس خواب کو شرمندہءِ تعبیر کرنے کے لئے متعدد تحاریک، آرگنائزیشن وغیرہ مختلف اشکال میں تبلیغ اور اس مسئلے کی سنگینی کا پرچار کر رہی ہیں اور جس شدت سے کررہی ہیں گویا محسوس ہوتا ہے جیسے سماج میں ایک واحد یہی مسئلہ رہ گیا ہے۔ میری اب تک کی تحریرمیں شاید تلخی کا عنصر محسوس ہوا ہو مگر دل آزاری میں ہرگز مقصد نہیں، مقصد صرف نظرانداز پہلو کی طرف توجہ دلانا ہے۔

آج کل کی دنیا میں دو آوازیں صاف سنی جا سکتی ہیں۔ ایک وہ جو انسانیت کا رونا روتے ہیں اور ایک وہ جو خواتینیت کا رونا روتے ہیں۔ انسانیت گروپ کے مذہب، رنگ ،نسل ،ذات پات کو پس پشت ڈال کر انسان کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسرا گروپ غیر ارادی طور لاشعوری طور پر انسان کی عظمت کا قائل ہی نہیں ہے۔ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں ان کا مدعا یہ ہے کہ انسان صرف عظیم ہوتا نہیں انسان عظیم ہوتی بھی ہے۔ فی الحال یہ سننے اور پڑھنے میں عجیب اور معیوب لگ رہا ہوگا مگرمیرے نزدیک حقیقت کچھ ایسی ہی ہے۔ جب بھی
عورت کی ذات پر کوئی اندوہ ناک وار ہوتا ہے اور خواتین کی نمائندہ اُس ہونے والے استحصال کا سوال کرنےکھڑی ہوتی ہیں تو انسانیت کے دیوتا اپنا انسان بیچ میں لاکر پورا کھیل اپنے حق میں کر لیتے ہیں ۔کچھ بھی ہے خواتین خود کو انسان ہونے سے علیحدہ تصور نہیں کرسکتیں اور عمومی طور پر “انسان ” کو مذکر اخذ کیا جاتا ہے۔ یہی وہ پینترا ہوتا ہے جہاں برابری کا سوال کرنے والی خواتین انسانیت کے دیوتاؤں کی نظریاتی ماتحت ہوجاتی ہیں۔ تو کس بات کی برابری ،کس بات کے حقوق اگرانہوں نے ماتحت ہی رہنا ہے۔

اس مسئلے کا سادہ ساحل میری نظر میں یہ ہے کہ مسئلہ سماج نہیں سماج میں استعمال ہونے والی زبان ہے۔ خواتین کی برابری کی تحاریک اور حقوق کے حصول کی کاوشیں کرنے والوں کو ایک ایسی زبان متعارف کرانی بڑے گی جو تذکیر کے تاثر سے سو فیصد پاک ہو۔ جس میں الفاظ کا جھکاؤ تذکیر مرکز کی طرف نہ ہو۔تب عورت ذات اس معاشرے میں مرد کے برابر اور اس پر انحصار کیے بغیر رہ سکے گی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں