The news is by your side.

گریبان سے گھٹنوں تک کا سفر

 قومی ٹی وی چینلز پر فو ٹیج اور سوشل میڈیا پر ایک تصویر نے نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ مسلم لیگ ن پہلے گریبان میں ہاتھ ڈالتی ہے اور اگر بات نہ بنے تو پاﺅں پڑ جاتی ہے ۔ اس تصویر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ٹوئٹر پر کمنٹس نے مذید بحث کو اہم بنا دیا ہے ۔ یہ واقعہ ہوا یوں کہ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹرپرویزرشید نے خلاف توقع پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماءاور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ سے ملاقات میں مصافحہ کرنے کے بجائے سیدھا ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور شاہ صاحب کی وقتی تعظیم کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔

یہ سب ایسے وقت میں ہوا ہے جب ن لیگ پاناما لیکس کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ ابتداءمیں مسلم لیگ ن کی قیادت اور خود پرویز رشید نے بھی مخالفین اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کانام لے کر ان پرمتعدد بارکرپشن کے الزامات لگا ئے ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تو یہاں تک کہہ دیا تھاکہ ان کے پاس خورشید کی کرپشن کی فائلیں موجود ہیں اور وہ ثبوت کسی وقت بھی منظرعام پرلا سکتے ہیں لیکن ایسا تو نہ ہوا کہ ن لیگ خورشید شاہ کی کرپشن کے ثبوت لاتی البتہ گھٹنے پکڑتے ہوئے پوری دنیا نے دیکھا ہے ۔ پاناما لیکس کے بعد مخالفین اور خورشید شاہ پر کرپشن کے جوابی الزامات دراصل گریبان پکڑنے کے ہی مترادف تھا، بات نہ بنی تو پاﺅں ( گھٹنے ) پکڑ لیے۔ کیا یہ کہاوت ن لیگ پر واقعی صادر آتی ہے اس کے لیے ماضی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

آپ نے سابق صدرضیاءالحق، جنرل جیلانی، سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو اورمیاں محمد اظہرکا نام تو سنا ہو گا۔ جنرل جیلانی دراصل شریف کاندان کے سیاسی محسن ہیں جنہوں نے نوازشریف کی ملاقات ضیاءالحق سے کرائی اور انہیں سیاست کے میدان میں مواقع فراہم کیے شائد آج نواز شریف کو معلوم ہی نہیں کہ جنرل جیلانی کا خاندان کہاں اور کس حال میں ہے، اسی طرح نوازشریف نے ضیاءالحق کی موت کے بعد اسلام آباد میں ان کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ عہد کیا تھا کہ میں ضیاءالحق کے مشن کو مکمل کروں گا لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کے بیٹے اعجاز الحق کو تنہا چھوڑدیا اور بعد میں ضیاءالحق کو ایک ڈکیٹیٹر کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔

سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو ضیا الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ضیاءالحق نے انہیں وزیر اعظم پاکستان کے لیے منتخب کیا، محمد خان جونیجو کو بعد میں پاکستان مسلم لیگ کا سربراہ بھی منتخب کیا گیا تھا ۔ سانحہ اوجڑی کیمپ کے بعد جونیجو کے ضیا ءالحق سے اختلافات ہوئے اور انہیں وزارت اعظمی سے الگ ہونا پڑا لیکن جب تک وہ وزیر اعظم اور مسلم لیگ کے سربراہ رہے شریف برادران جونیجو کے کار خاص بننے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے اورجب جو نیجو کی حکومت ختم ہوئی تو نواز شریف نے جونیجو صاحب سے تعلق ہی توڑ لیا اور ضیاءالحق کی طیارہ حادثے میں موت کے بعد نواز شریف نے فدا محمد خان کے ساتھ مل کر نئی مسلم لیگ بنا لی۔ فدا محمد خان کو شریف برادران نے پارٹی سے کیسے نکال دیا، شائد کسی کو معلوم نہیں۔

سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر جو کہ آرائیں برادری کے سربراہ سمجھے جاتے تھے انہوں نے شریف خاندان کو قومیائی گئی اتفاق فاﺅنڈریز واپس دلانے میں اہم کردارادا کیا وہ بھی ایک عرصے تک شریف خاندان کی آنکھ کا تارا رہے لیکن جب میاں محمد اظہرنے سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو شہید کو اپنی بیٹی کی شادی میں بلایا اورشریف فیملی سیاست میں مضبوط ہوئی تو میاں محمد اظہر کو بھی بھلا دیا ۔ جب نواز شریف کی حکومت کا 1999 میں تختہ الٹا گیا تو اس وقت کے وزیر اعلی سندھ سید غوث علی شاہ شائد وہ شخصیت ہیں جن کی وجہ سے نواز شریف کی زندگی محفوظ رہی کیونکہ پرویز مشرف نے وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے سب سے زیادہ دباﺅ سید غوث علی شاہ پر ڈالا لیکن انہوں نے نوازشریف سے بے وفائی کرنے سے انکار کردیا۔

نواز شریف جب لندن میں جلا وطنی کی زندگی گذاررہے تھے تو لندن میں مسلم لیگ ن کی ایک تقریب میں ایک رہنماءنے نواز شریف کو لیڈر کہہ کر مخاطب کیا تو نواز شریف نے خود اسٹیج پر آکر کہا تھا کہ میں لیڈر یا قائد نہیں بلکہ سید غوث علی شاہ میرے اور آپ کے لیڈر اور قائد ہیں ۔ لیکن 2013کے انتخابات جیتنے کے بعد میاں نواز شریف نے سید غوث علی شاہ کو نظر انداز کر دیا اور وہ ناراض ہو کر نواز شریف سے علیحدہ ہو گئے اسی طرح کراچی سے تعلق رکھنے والے سردار عبد الرحیم جنہوں نے نوا زشریف کی جلا وطنی کے دوران ن لیگ کو سندھ میں زندہ رکھا اور نوازشریف متعدد بار سردار عبد الرحیم کو اپنا وفاداراورمخلص دوست کہہ چکے تھے۔ سردار عبد الرحیم نے سندھ میں مسلم لیگ ن کو نظر انداز کرنے کا گلہ نواز شریف سے کیا اور پارٹی کارکنوں کو لاوارث چھوڑنے کے خلاف احتجاج کیا تو جواب میں نواز شریف نے 2013کے انتخابات میں سردار عبد الر حیم کے بجائے پر ویز مشرف کے قریبی ساتھی اور سابق صدر غلام اسحا ق خان کے داماد عرفان اللہ مروت کو ن لیگ کا ٹکٹ دیدیا اورسردار عبد الرحیم نے بھی ناراض ہو کر ن لیگ کو خیرباد کہہ دیا اسی طرح سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ کی جد وجہد اور قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن شریف خاندان نے انہیں بھی ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات پر ویز رشید نے خورشید شاہ کے گھٹنے خود پکڑے ہیں یا کسی کے اشارے پر یہ سب کیا گیا ہے۔ کیا وزیر اعظم نوازشریف نے آصف علی زرداری سے ملاقات کی متعدد کوششوں میں ناکامی کے بعدخورشید شاہ کے گھٹنے پکڑنے کا ٹاسک پر ویزرشید کو دیا تھا ؟ کیا نوا زشریف کا یہ داﺅ اس بار کامیاب ہو جائے گا اور شریف فیملی پاناما لیکس کے بھنور سے باہر نکل پائے گی اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا البتہ تاریخ لکھے گی کہ گریبان سے گھٹنے پکڑنے کا ایک اور سفر ن لیگ نے طے کر لیا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں