The news is by your side.

اسلام آباد والو۔۔۔۔ تمہیں انسانی حقوق مبارک

صبح سے اب تک خود پر یقین نہیں آرہا کہ میں سکتے میں ہوں یا نیند میں ۔ فریش بھی ہوا ناشتہ بھی کیا اور گھر سے دفتر بھی آیا لیکن معلوم نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں نیند میں ہوں اور سوتے میں کوئی سہانا خواب دیکھ رہا ہوں ۔خود پر یقین نہیں آرہا کہ میری آنکھوں نے ٹی وی اسکرین پر جو ٹکردیکھے اور میرے کانوں نے جو سنا وہ سچ ہے یا کوئی بھونڈا مذاق ۔خود کو سمجھانے کی لاکھ کوشش کی کہ کچھ لوگ جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھتے ہوں شائد اب میرا بھی انہی لوگوں میں شمار ہونے لگا ہے جو جاگتی آنکھوں سے سپنے دیکھتے ہیں ۔ لیکن پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے قابل احترام جسٹس صاحب کے ریمارکس کانوں میں گونجتے ہیں اور میں جھٹک کے کہتا ہوں نہیں میں خواب نہیں دیکھ رہا ۔ میرے کانوں نے جو سنا ہے وہی سچ ہے گو وقتی ہی صیح لیکن حقیقت یہی ہے جو میں نے دیکھا اور سنا ۔

لاہور ہائی کورٹ کے قابل احترام جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تحریک انصاف کے دو نومبر کے اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کو بند کرنے یا کینٹینرز لگا کر سیل کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دینگے ۔معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاکہ شہر کو بند کرنے سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں ۔ انتہائی معذرت کے ساتھ یہی وہ جملے ہیں جنہوں نے مجھے صبح سے بے چین کر رکھا ہے ۔یہ جملے سننے کے بعد اپنی اٹھارہ سالہ صحافتی زندگی کے ان گنت واقعات اور سانحات میری یادداشت میں بازگشت کررہے ہیں۔ یہ حکم سنتا ہوں تو ماضی جھوٹ لگتا ہے اور اگر اپنی آنکھوں سے دیکھے واقعات پر یقین کرتا ہوں ۔ تو دماغ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ بھلا پاکستان اور انسانی حقوق ۔۔ کوئی کرنے والی بات کریں صاحب۔

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جس ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ۔ یوں کہہ لیں 250لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جنہوں نے آج تک اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا ۔پاکستان میں دوران زچگی ماؤں کی سالانہ شرح اموات پانچ لاکھ سے زائد ہے جو علاج کی سہولتیں نہ ملنے کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں ۔پانچ لاکھ بچوں کو بنیادی ضروری خوراک میسر نہیں ہوتیں اور وہ زندگی کی صرف پانچ بہاریں دیکھ پاتے ہیں۔وطن عزیز کی کل آبادی کا35فیصد حصہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔ اس بد نصیب قوم کے تقریبا 12کروڑ لوگوں کو تین وقت کا کھانا میسر نہیں ہے ۔ جس ملک کی جیلوں میں معمولی مقدمات میں ہزاروں قیدی ایسے پڑے ہوں کہ جن کے پاس ضمانت یا جرمانہ ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں۔ جس بد نصیب معاشرے میں ہر سال سینکڑوں بیٹیوں کی عصمت دری کی جاتی ہو ۔جہاں غیرت کے نام پر حوا کی بیٹیوں کو کبھی جلا کر تو کبھی تیزاب گردی سے موت کے منہ میں دھکیلا جاتا ہو۔جہاں ہر سال سینکڑوں بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہو۔صاحب !وہاں انسانی حقوق کی بات مذاق نہیں تو اور کیا ہے ۔

جہاں ہر سال سینکڑوں لوگ جینے کی بجائے غربت بے روزگاری اور تنگدستی سے تنگ آکرخود کشی کرنے پر مجبور ہوں۔جس مردہ معاشرے میں ایک مجبور ماں کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ ہو کہ اپنے بھوکے بچوں کو کھانا کھلانے یا ننگے بچوں کا بدن ڈھانپنے کے لیے یا تو اپنا جسم فروخت کرے یا پھر بچوں سمیت زہر کی گولیاں کھا لے ، نہر میں چھلانگ لگا دے یا بچوں کے گلے کاٹ کر خود بھی موت کو گلے لگا لے ۔وہاں انسانی حقوق مذاق ہی تو ہے۔

ماڈل ٹاؤن میں 100لوگوں کو ریاست نے دن دہاڑے گولیوں سے بھون دیا جس میں 14لوگ جان سے گئے وہاں کسی کو انسانی حقوق یادکیوں نہیں آئے ۔تھر میں سینکڑوں بچے خوراک اور علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔ کیا وہ انسان نہیں تھے یا انکے بنیادی حقوق نہیں ؟کچرا کنڈیوں سے روٹی کے ٹکڑے تلاش کرکے پیٹ کی آگ بجھانے والے بچوں کا یہ طرزِ زندگی کیا انسانیت کی معراج ہے ؟وزیر اعظم سمیت ہر بڑے سیاستدان نے اپنے گھرکے سامنے والی سڑکوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر رکھا ہے یہاں انسانی حقوق کسی کو یاد کیوں نہیں آتے ؟۔

ملک کے وزیر اعظم پر اربوں کھربوں روپے کے اثاثے بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام ہے ۔ انکے بچے اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے لندن میں جائیدادیں بنائی ہیں ۔یہ غیر قانونی عمل ہے اور نہ یہاں کسی کو انسانی حقوق یاد آتے ہیں۔ سات ماہ گزر گئے پاناما لیکس کے معاملے پر بھوکی ننگی قوم کے پیسے بیرون ملک کیسے منتقل کیے گئے کسی کو کوئی پروا نہیں ۔ ہاں جب کوئی ان سے پوچھ لے اور وہ جواب دینے سے صاف انکار کر دیں ۔ تمام راستے بند ہونے کے بعدمجبور ہو کر اگر کوئی اسلام آباد کو بند کرنے کی بات کریگا تو یہ انسانی حقوق کا مسئلہ بن جائے گا ۔تو صاحب یوں کہیں نا کہ بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق صرف اسلام آباد کے لوگوں پر لا گو ہوتا ہے ۔ان کے مسائل کسی سے دیکھے نہیں جاتے ۔باقی بیس کروڑ لوگوں کو جب کوئی انسان ہی نہیں مانتا تو ان کے حقوق کیسے ؟اگر ہوتے تو کوئی تو ان کے حقوق کی بات بھی کرتا ۔ سمجھ آگیا صاحب اور آنکھیں بھی کھل گئیں ۔ میں بھی نا ۔۔۔پتہ نہیں کیا سوچ بیٹھا تھا۔۔ یہ واقعی خواب تھا جو بکھر گیا ۔ نہ جانے میری طرح کتنے ہی لوگوں نے یہ خواب دیکھا ہے تو جناب معذرت کے ساتھ آپ بھی سیدھا سیدھا ارشاد فرما دیتے کہ جو کھیل پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ایسا کھیل ہم اسلام آباد کے شہریوں کے ساتھ کسی کو نہیں کھیلنے دینگے ۔ آپ کے فیصلے سے خواہ مخواہ پاکستان کے لوگ کنفیوز ہو گئے تھے ۔خیر کوئی بات نہیں بیس کروڑ زندہ لاشوں کی اپنی قسمت ۔۔ اسلام آباد کے چند لاکھ  لوگوں کو انکے بنیادی انسانی حقوق بہت بہت مبارک ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں