The news is by your side.

یا شیخ ‘ خطِ نجات کا شکریہ کیسے ادا کروں ؟

یا اخیِ کبیرالشیخ حمد بن جاسم بن جبر الثانی اسلام و علیکم

 بندہ ممنون و مشکور ہے کہ آپ کا سندیسہ ملا۔خط کھولنے سے پہلے بخدا دل کو وہ راحت اور سکون ملا کہ بیان نہیں کر سکتا ۔دل کو دل سے راحت ہوتی ہے ایسا لگ رہا تھا کہ مدتوں بعد کسی اپنے نے یاد کیا ہے ۔ خط کھولنے سے پہلے اسے چوما آنکھوں سے لگایا توزخمی دل باغ باغ ہو گیا ۔آپ کو تو معلوم ہے کہ میرا دل کتنا زخمی ہے پھر کچھ سیاسی لفنٹروں نے اسے بہت دکھ دے رکھے ہیں۔خیر خط کھولا تو پہلے تو آنسوؤں کی جیسے جھڑی سی لگ گئی ہو۔ خط ِمبارک کی پہلی سطور پڑھیں تو وہ سب یاد آگیا جو مجھے معلوم ہی نہیں تھا ۔

گذرا زمانہ یاد آ گیا وہ بھی کیاسنہری دور تھا جب ہمارا اور آپ کا خاندان محبت اخوت اور بھائی چارے کے ان رشتوں میں بندھا تھا‘ جب ابا حضور اور اور آپ کا خاندان نیک نام یک قلب اور دوجان تھے۔حالانکہ ابا حضور اور آپ کے خاندان کی شاید کوئی ایک آدھ ہی ملاقات ہوئی ہوگی جس کا مجھے معلوم نہیں۔ لیکن پھر بھی ایسا لگتا تھا کہ قدرت نے جنم جنم میں انکی کاروباری شراکت داری لوحِ محفوظ پر لکھ دی تھی ۔یا شیخ آپ کی دیانت شرافت اور ایمانداری پر کائنات قربان کرنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ اس نفسا نفسی کے دور میں جب ماں جائے ایک دوسرے کا مال چرانے میں لگے ہیں آپ نے ہمیں وہ حق لوٹادیا جس کا ہمیں علم ہی نہیں تھا ۔

آپ کی ہمارے خاندان پر کرم نوازی کہ کاروبار تو مشترک تھا لیکن آپ نے کبھی اپنا حق نہیں جتلایا ۔ لندن فلیٹس عرصہ دراز سے میرے اور میرے بچوں کے زیر استعمال ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اتنے علیشان محل نما فلیٹس ہیں تو ہمارے استعمال میں لیکن ان کا اصل مالک کون ہے اور ہمیں یہ کس نے عطا کر رکھے ہیں۔

اخیِ کبیر بندہ نا چیز اور انکا خاندان کن مشکلات میں گھرا تھا کچھ اس کا احوال محسنِ عظیم الشیخ حمد کے حضور پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ کھلاڑی نما سیاستدانوں نے ہمارے خاندان ِ عظیم پر کرپشن اور قومی خزانے سے پیسے چوری کرنے جیسے مکروہ الزامات لگائے ۔لوگ بھی ہمارے شاہانہ طرز زندگی کو دیکھ کر شریف خاندان پر شک کرنے لگے ۔ حالانکہ کہ آپ تو جانتے ہیں کہ نام کا انسان کی شخصیت پر کتنا اثر ہوتا ہے ۔جس کا نام ہی شریف ہو بھلا وہ ایسی حرکت کیونکر کر سکتا ہے ۔وہ کوئی پاناما لیکس ہے اس کے شور میں ہم غارت ہوئے چلے تھے ۔مخالفین کے الزامات کے لاکھ جواب دیئے لیکن کوئی بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں تھا ۔

آپ کے خادم نے دو بار قوم سے خطاب اور ایک بار قومی اسمبلی میں وضاحت پیش کی ۔ محسن ِ کبیر یا شیخ سچ پوچھیں تو میں اور میرے بچے جیسے سٹھیا گئے تھے ۔ ہمیں کچھ یاد نہیں آرہا تھا کہ یہ فلیٹس کہاں سے آئے ۔ الزامات کے شور میں ایسی افراتفری مچی کہ ہمارے لیے تو یہی جہان میدان حشر بن گیا ۔ مجھ سمیت میرے خاندان کے ہر فرد کا بیان ایک دوسرے کی نفی کر رہا تھا ۔ ہر نفس کو اپنی فکر لگی تھی ۔ مخالفین ہمیں گھسیٹ کر عدالت لے گئے ۔گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں ‘ میں نے اپنی جان سے پیاری بیٹی کو اپنی کفالت سے محروم کردیا ۔

میرے بچوں کو یہ اتناتو یاد تھا کہ یہ فلیٹس ہمارے ہیں ۔وہ تو جیسے جوانی میں سٹھیا گئے ہوںانہیں یہ یاد نہیں آرہا تھا کہ اتنی مہنگی جائیداد ہمیں کس نے عطا کی ہے ۔زندگی کی جو جمع پونجی تھی وکیلوں اور مشورے دینے والوں نے لوٹ لی لیکن راہ نجات نہیں مل رہی تھی ۔
ایسے میں آپ کا خط مبارک ہمارے پریشان حال خاندان کے لیے راحت و سکون کا سبب بنا ۔میرا دل کہہ رہا تھا کہ کوئی اپنا ہی اس مشکل اور کٹھن وقت میں ہماری دنیاوی نجات کا ذریعہ بنے گا ۔خدا کی زمین پر اس وقت آپ سے زیادہ کون نیک نام اور پارسا انسان ہو گا کہ ہمارا کاروبار تو مشترکہ تھا لیکن آپ نے اپنا حصہ بھی نہیں مانگا ۔یہ ذرہ نوازی آپ اور ہمارے خاندان کے درینہ تعلقات کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔

مشکل وقت میں یاد آوری کا شکریہ ۔ دل تو چاہ رہا ہے کہ برادر ِکبیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ کی کائنات کے سارے کاغذسیاہ کر دوں لیکن الشیخ آپ کی طرح کا ایک محسن ہماری پریشانیوں کا سن کر بندہ نا چیز کا مہمان بنا ہے ۔ آغا رجب طیب اردوان ابھی ابھی ملک پاکستان پہنچے ہیں ۔ وہ اس معاملے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں ۔ آغا جان کے لوگ بھی ان سے ایسا ہی حساب مانگ رہے تھے لیکن آغا جان نے سب کو خاموش کروا دیا ہے ۔

یا شیخ مجھے یقین کامل ہے کہ آغاجان بھی کوئی ایسا ہی خط لائے ہوں گے جیسا خط آپ نے عطا کیا ہے ۔وہ پارلیمنٹ سے خطاب کرنے جا رہے ہیں کل وہ بھی روانہ ہو جائیں گے ۔ عدالت سے فراغت ملنے کے بعد بندہ بے پایاں احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے لیے خود حاضر ہو گا۔

وسلام
آپکی محبتوں اور احسانات کا قیدی
شریف ابنِ شریف

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں