The news is by your side.

نیوز گیٹ سکینڈل‘ قومی سلامتی اورتحقیقاتی کمیٹی

یہ بات تو طے ہے کہ حکومت قومی سلامتی کی اہمیت سے یا توبالکل بے خبر ہے ۔یا پھر سب کچھ جانتے ہوئے بھی کسی اہم شخصیت کو قومی سلامتی سے متعلق لیک یا فیڈ ہونے والی خبر کے انجام سے بچانا چاہتی ہے ۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اس شخصیت کے سامنے پاکستان یا اس کی سلامتی کی کوئی اوقات یا حیثیت نہیں ہے۔ جبھی تو اتنے جتن کیے جا رہے ہیں۔نیوز گیٹ سکینڈل میں سات کا ہندسہ اہم ہے۔ ڈان اخبار میں قومی سلامتی کے منافی خبرکی اشاعت بھی سات تاریخ(7اکتوبر 2016) کو ہوئی اور اس خبر کی تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان بھی سات تاریخ (7نومبر2016) کو کیا گیا ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی سلامتی اتنی ارزاں، بے وقعت اور حیثیت سے عاری ہے کہ ایک ماہ تک حکمرانوں کو وقت ہی نہیں ملا کہ وطن عزیز کی بقاء سے کھیلنے والوں کا پتہ چلانے کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔اور پرکھا جائے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے یا وزیر اعظم ہاؤس کے اندر تک رسائی رکھنے والے میر جعفر اور میر صادق کون ہیں ۔

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ ۔۔کے مصداق تحقیقاتی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ۔جو قومی سلامتی سے متعلق خبر لیک یا فیڈ کرنے سے کہیں زیادہ بھونڈے اور خطرناک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کمیٹی کے ذریعے حکومت نے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو صاف اور کھلا پیغام دیا ہے کہ ۔ مملکت خداداد کی وقعت، اہمیت اور حیثیت یہ ہے کہ خدا نخواستہ اگر پھر کبھی ایسا معاملہ پیش آئے تو بس اس کے لیے ایک ریٹائرڈ جج ہی کافی ہے ۔

اب ذرا نیوز گیٹ سکینڈل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے خدوخال ملاحظہ فرمائیں ۔آپ کو بھی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ہو جائے گا ۔جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کمیٹی کے سربراہ ہونگے جبکہ ممبران میں محتسبِ اعلی پنجاب نجم سعید ،ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ڈاکٹر عثمان انور،سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ دویژن طاہر شہباز جبکہ دیگر ممبران میں آئی ایس آئی ، ملٹری انٹلیجنس اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہو گا ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے یہی کچھ کرنا تھا تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹرپرویز رشید کا کیا قصور تھا ؟تحقیقات مکمل ہونے سے قبل وفاقی وزیر کو کیوں ہٹایا گیا ؟تحقیقات کا وہ کون سا پیمانہ تھا جس کے ذریعے یہ تو معلوم ہو گیا کہ پرویز رشید کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے صحافی سرل المیڈا کو خبر کی اشاعت سے نہیں روکا ۔ لیکن وفاقی حکومت اور چوہدری نثارکو اس خفیہ نام کا پتہ ہی نہیں چل سکا جس نے دنیا بھر میں پاکستان کو تنہا اور مسلح افواج کو بدنام کرنے کی سازش کی ۔

کیا واقعی پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے ؟اور خبر لیک یا فیڈ کرنے والے اس بات کا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ پرویز رشید اپنی زندگی بھر اور آئندہ کی سیاست کی قربانی دیکر بھی کبھی منہ نہیں کھولیں گے ؟اگر خبر لیک یا فیڈ کرنے والوں کا یہ منصوبہ کامیاب ہو بھی جائے اور اہم شخصیت اپنے انجام سے بچ جائے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں یا پھر وزیر اعظم ہاؤ س تک با آسانی رسائی رکھتے ہیں جو کسی بھی مناسب موقع پر یا اپنے مفادات کے دفاع کے لیے پاکستان کے اہم ترین راز دنیا کے سامنے افشاں کر سکتے ہیں ؟

نیوز گیٹ اسکنڈل کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ عامررضا خان کے شریف فیملی سے دیرینہ تعلقات کو جواز بنا کر انکی تعیناتی کو چیلنج کر دیا گیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی سے الگ ہونے کے لیے قریبی حلقوں سے مشاورت بھی شروع کردی ہے ۔

کیا پاکستان کی سلامتی ایک غیر سنجیدہ معاملہ ہے ؟ کیا وطن عزیز کی سلامتی مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ؟یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کا جواب اس قوم کے بیس کروڑ عوام کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں ۔ یہ تاثر کیوں عام ہو رہا ہے کہ مملکت خداداد کے خلاف سازشیں کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں ۔نیوز گیٹ سکینڈل کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے جسے اس طرح نظر انداز کردیا جائے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ صدر مملکت ، خود وزیر اعظم میاں نواز شریف اور قومی سلامتی کے ضامن ادارے اس معاملے کی تہہ تک جائیں اور ان خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کریں ۔ جنہوں نے پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے کی مذموم کوشش کی ہے ۔یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے اگر مٹی پاؤ والی پالیسی اختیار کی گئی تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ قوتیں قومی سلامتی کے ساتھ مزید اس طرح کا گھناؤنا کھیل نہیں کھیلیں گی۔غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا یہ کھیل اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچتاتو پھر قوم اس بات کو تسلیم کرلے کہ پاکستان اہم نہیں ۔کچھ شخصیات اہم ہیں اور ادارے پاکستان سے زیادہ ان شخصیات کے دفاع کے ضامن ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں