The news is by your side.

گاڑیوں کی چھتوں پر لدی‘ شہدائے وطن کی لاشیں

پتہ نہیں کیوں سانحہ پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ پر اپنی ناکامیوں ، غفلت ، لا پرواہی اور بداعمالیوں پر نوحہ لکھنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا ۔ 2بار لکھنے کی کوشش کی کچھ لکھا بھی لیکن پھر دل اتنا بوجھل ہوجاتا کہ اپنا لکھا خود ہی مٹا دیتا ۔اور سوچنے بیٹھ جاتا کہ خدایا آخر ہم سے ایسی کونسی سے غلطی سر زد ہو ئی ہے جس کی سزا کم و بیش تین دہائیوں سے اس قوم کے معصوم اور بے گناہ لوگ بھگت رہے ہیں اور عذاب الہی کا یہ سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔جب سوچ کسی نتیجے پر نہ پہنچی تو کمپیوٹر ہی بند کردیا لیکن یہ سوچ دماغ پر سوار رہی کہ کیا کبھی اس ملک کو بھی امن نصیب ہو گا ؟۔

دل اس وقت ڈوب گیا جب ٹی وی پر یہ خبر فوٹیج سمیت دیکھی کہ سانحہ کوئٹہ کے شہداء کی میتیں لوکل ویگنوں کی چھتوں پر رکھ کر ان کے آبائی علاقوں کی جانب روانہ کی جارہی ہیں ۔ کل صبح جب پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو لہو لہو کوئٹہ پہنچتے دیکھا  تھاتو دل کو تسلی ہوئی کہ قوموں پر مشکلات آتی ہیں ۔ ہمارے بڑے اس مشکل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سانحہ کے زخمیوں کی عیادت کی جا رہی ہے وزیر اعظم اور دیگر ذمہ دار زخمیوں کے بہتر سے بہتر علاج کی ہدایات جاری کر رہے ہیں ۔ شہداء کے لواحقین کے آنسو پونچھنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں تو حوصلہ بڑھا ۔

لیکن اگلی ہی صبح سارے حوصلے ٹوٹ گئے جب وطن کے بیٹوں کی میتوں کو لاوارثوں کی طرح ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں کی چھتوں پر لدے دیکھا ۔ اس طرح تو آدھا کرایہ دینے والے کسی دوکاندار کے سامان سے بھرے بورے چھتوں پر نہیں لادے جاتے جس طرح اس قوم کے بہادر بیٹوں کی میتوں کو بے توقیری کے ساتھ بڑبڑاتی اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی چھتوں پر لادا گیا تھا ۔

وزیر اعظم صاحب نے اسلام آباد سے نکلتے نکلتے چار گھنٹے لگا دیئے اور وہ شہید کیپٹن روح اللہ کے نماز جنازہ میں شرکت بھی نہ کر سکے ۔ دیگر میتوں کو صبح سے سہہ پہر تک انتظار کرایا گیا ۔ یعنی اگربادشاہ سلامت شہداء کا جنازہ پڑھنے کے خواہش مند ہیں تو بھی میتیں ہی انتظار کریں۔مرنے کے بعد انسان زندہ لوگوں کا محتاج ہوتا ہے ۔ ان کی مرضی وہ میت کے ساتھ جیساچاہے سلوک کریں ۔ ایک دن بعد دفنائیں یا ایک سال بعد میت کچھ کہنے یا گلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے ۔ البتہ شرعی حکم یہی ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے تدفین کا عمل مکمل کیا جائے ۔یہاں شریعت سے زیادہ خوشامد پسندی میں ڈگری ہولڈر وزیر اعلی بلوچستان ثنا اللہ زہری اجتماعی نماز جنازہ میں نواز شریف کی شرکت کو اہمیت دے رہے تھے ۔

سوچاتھا شہداء کو جتنا اعزاز بخشا جا رہا ہے ۔اس سے بلوچستان سمیت ملک بھر کے لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا جائے گا کہ وطن کی بقاء کی جنگ میں جانیں قربان کرنے والوں کو ریاست لاوارث نہیں چھوڑتی ۔ بلکہ انہیں ایسے اعزازات بخشے جاتے ہیں کہ زندہ لوگ بھی ایسی موت کی تمنا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف شاہانہ پروٹوکول میں شاہی جہاز پر کوئٹہ پہنچے ۔اور پھر کوئٹہ کی سڑکوں کو ویران کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ بادشاہ سلامت شہداء کی نماز جنازہ ادا کرنے پہنچ گئے ہیں ۔ زخمیوں کی عیادت اور روایتی اجلاس کے بعد سارے بڑوں نے اسلام آباد کی راہ لی ۔

اس کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ بلوچستان حکومت شہداء سے اکتا گئی ہے وہ جلد سے جلد دھرتی ماں کی بقاء کی جنگ میں جانیں نچھاور کرنے والوں کو ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کرکے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس جلدی میں ایمبولینسسز کا انتظار کیے بغیر چند ٹکوں پر پھٹی پرانی گاڑیوں کو کرائے پر حاصل کیا گیا ۔ اور گاڑیوں کی چھتوں پر میتیں لاد کر ثناء اللہ زہری کی حکومت نے جیسے سکھ کا سانس لیا ہو۔

سوال یہ ہے کہ کیا شہداء کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے ؟ خدا نہ کرے اگر ان شہداء میں وزیر اعلی بلوچستان کا کوئی اپنا پیارا شامل ہوتا تو اسکی میت بھی کسی پھٹیچر گاڑی کی چھت پر لاد کر آبائی علاقے کو روانہ کی جاتی ؟ کیا وزیر اعظم نے بلوچستان حکومت سے پوچھا کہ شہداء کی میتوں کو آبائی علاقوں میں روانہ کرنے کے کیا انتظامات ہیں ؟ وزیر اعظم کیوں پوچھتے ۔ اللہ نہ کرے ان شہداء میں انکا کوئی اپنا تھوڑی تھا کہ انہیں یہ دردمحسوس ہوتا ۔

خدا کا فرمان ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں ۔ شہید سے بڑھ کرکوئی دوسرا مرتبہ نہیں ۔ جس قوم کے حکمرانوں کو شہید کی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو ۔ جو حکمران شہدا ء کو عزت و احترام دینے کے بجائے ان کی بے توقیری کریں۔ ایسی ہی قوموں پر خدا کے عذاب نازل ہوا کرتے ہیں ۔ میرے خود سے کیے تمام سوالوں کے جواب مل گئے ہیں ۔ یہ مسائل اور مشکلات ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کا نتیجہ ہیں ۔ لیکن اس قوم کا خون میں لت پت بلوچ بھائیوں کو سرخ سلام ۔ کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے بہادر جوانوں نے اپنی جوانیاں قربان کرکے بھی سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھا ہے ۔حکمران کتنے ہی اپنی انا کے قیدی ہوں، وہ دولت اور پروٹوکول کو اپنا خدا سمجھتے رہیں لیکن قسم ہے شہداء اور جوانوں کے زخموں سے بہتے گرم خون کی ۔۔بقائے وطن کے لیے قربانیوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں تھمے گا جب تک سبز ہلالی پرچم پر حملہ کرنے والے انسانیت کے ایک ایک دشمن کا خاتمہ نہیں کر لیتے ۔بلوچ غیرت مند قوم ہیں انہوں نے اپنے کڑیل جوان بیٹوں کے جنازے اٹھائے ہیں ۔کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے جانثار بیٹوں کی جوانیوں کی قسم اب یہ قافلہ نہیں رکے گا یہاں امن کے پھول کھلیں گے ۔ یہاں سے امن کے پھوٹنے والے چشمے ہر اک کو سیراب کریں گے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں