The news is by your side.

آپ خود اپنی اداوٗں پہ ذرا غورکریں

جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا ہوں کہ پندرہ برس قبل جب جہاں پناہ افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے تب آپ نے پوری دنیا کو خوش خبری دی تھی کہ چند ہفتوں میں دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے ایک نئی اور پرامن دنیا کی بنیاد رکھی جائےگی تب آپ کی ہیبت سے مغلوب ہو کر تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک نے اس نہ ختم ہونے والی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔

ہفتے مہنیوں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوگئے مگر پرامن دنیا کا خواب، خواب ہی رہا، جو کل افغانستان تک محدود تھے وہ کراچی، لندن، میڈرڈ اور بالی پہنچ گئے۔ان کے خاتمے کے لیے آپ عراق اور لیبیا پہنچے، اس مشق کے نتیجے میں عراق تو برباد ہوا ہی مگر وہاں سے وہ عفریت برآمد ہوا کہ اس نے بغداد، استنبول، قطیف، ڈھاکا، پیرس اور برسلز دہلا دیئے۔

وہ جن اب بوتل میں جانے کو بالکل بھی تیار نہیں جو عراق سے نکلا تھا بلکہ ان کے رنگ ڈھنگ ایسے نکلے کہ پرانے جہادیوں نے کانوں کو ہاتھ لگا دیئے۔

اب پندرہ برس بعد آپ اپنی ناکامیوں کی داستان سناتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے دنیا کو ایک ہونا ہوگا۔
اچھی بات کی، یہی خوف کا وہ ہتھکنڈہ ہے جسے آپ آج کل فروخت کر رہے ہیں۔

جناب عالی ، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل اس خطرے سے نمٹنے کی صورت میں کچھ نیا نہیں ہوگا ؟
ہاں یہ ضرور یاد رہے کہ ابھی تو وہ لوگ ہی ختم نہیں کیے جاسکے جن سے چند دنوں میں آپ دنیا کو نجات دلانے والے تھے۔

آپ اپنی اداؤں پر غور کرنا پسند کریں گے ؟ یا راوی اس بابت سکوت کو ہی پسند کرتا ہے ؟۔

بہت سے احباب مدینہ میں کی گئی دہشت گردی کی بھیانک واردات کو حرم مدنی پر براہ راست حملہ قرار دے رہے ہیں ، میرا خیال ہے کہ اس سے گریز بہتر ہے کیونکہ ایک تو اس سے عام مسلمانوں کو بہت غلط پیغام جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ حملہ مسجد کے قریب تعینات سیکیورٹی فورسز پر ہوا یعنی کہ ہدف طے شدہ تھا، حملہ آور کے لیے مسجد جانا قطعی مسئلہ نہیں تھا۔

ابھی تک واضح نہیں کہ ان حملوں کے پیچھے کون ہے ؟ لیکن اس وقت سعودی حکام حوثی قبائل اور دولت اسلامیہ سے حالت جنگ میں ہیں اور ان سے کچھ بعید نہیں۔ سعودی حکام، ان کی پولیس و فوج کی بابت دولت اسلامیہ کے کھلے عام مرتد ہونے کے فتاویٰ موجود ہیں، دولت اسلامیہ کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ عام مسلمان ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ علماء کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور ان کے عمل سےاسلام اور مسلمانوں کو کیا اور کتنا نقصان پہنچے گا؟ ان کی اپنی ہی سوچ ہے جس پر پوری قوت سے جمے ہوئے ہیں۔ ان کے رویے اس قدر انتہا پسندانہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی تنظیم القاعدہ تک کو ان سے فاصلے اختیار کرنے پڑے۔

سعودی حکام کی پالیسیوں کے خلاف پہلی بڑی بغاوت اسامہ بن لادن نے کی تھی یہاں تک کے ان دنوں ریاض میں امریکی فوجیوں پر ہونے والے حملوں کو انھوں نے خوب سراہا، خود القاعدہ کے سعودی جنگجو عبدالعزیز عیسی المقرن نے سعودی سیکیورٹی اہلکاروں اور غیر ملکیوں پر دو ہزار تین اور چار میں متعدد حملے کیے۔ بعد ازاں المقرن ایک پولیس مقابلے کی نذر ہوا۔
القاعدہ نے وزیر داخلہ محمد بن نائف (جو اب ولی عہد ہیں) پر ایک خود کش حملہ بھی کرایا جو کہ ناکام رہا لیکن ان سب کے باوجود القاعدہ نے حرم مکی و مدنی میں حملوں سے ہمیشہ گریز کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلم امہ اس حوالے سے کتنی حساس ہے۔
دوسری طرف دولت اسلامیہ ہے جسے اپنی کسی بھی کارروائی کے لیے رائے عامہ کی پروا نہیں ہوتی اس کے سفاک عسکریت پسند وہی کرتے ہیں جسے درست سمجھتے ہیں۔
یہ امر حیران کن ہے کہ اتنی شدت رکھنے کے باوجود اسے نیا خون مسلسل مل رہا ہے۔
اس عہد کا چیلنج دولت اسلامیہ بن چکی لیکن افسوس کہ اس سے نمٹنے کے لیے روایتی طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ ابھی بھی مؤثر انداز میں اپنی دہشت گرد کارروائیاں بیک وقت کئی ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دس دنوں کے دوران دولت اسلامیہ استنبول، ڈھاکا و بغداد کو خون میں نہلا چکی ہے ایسے میں یہ ہلاکت خیز حملے بتا رہے ہیں کہ ابھی کشت و خون کا سیلاب مزید بہے گا اور مستقبل کئی خدشات لیے ہمارے آگے کھڑا ہے۔
نجانے اس کا انجام کیا ہوگا ؟

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں