میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول ٹنڈو رحیم خان میں صرف ایک ہی جماعت کا امتحان دیا تھا۔ چونکہ والد صاحب کو عمرہ کرنے جانا تھا،یہ عمرہ در اصل ذریعہ روزگار ہوا کرتا تھا۔ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کی پاکستان سے بہت اچھی دوستی تھی اس لیے عمرے پر جانے والے پاکستانی سعودی عرب میں ٹک جاتے تھے لیکن انہیں پکڑا نہیں جاتا تھا۔سو والد صاحب نے بھی کوچ کیا۔
یہ 1976ء میں آنے والے خطرناک سیلاب کے ہی دن تھے کہ والد صاحب سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ حج کی ادائیگی اور کچھ پیسے کمانے کے بعد ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ پورے اہل خانہ کو ہی سعودی عرب بلایا جائے۔ چھوٹے شہروں میں تب مقامی ایجنٹ بڑے ٹریول ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں کو سعودی عرب بھیجتے تھے۔ والد نے مقامی ایجنٹ غلام قادر جمالی کو رقم دی اور ہمیں حکم ہوا کہ پاسپورٹ اس ایجنٹ کے سپرد کریں۔ سیلاب آنے کے بعد پورا علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھااور نظام درہم برہم ہونے کے سبب ٹرانسپورٹ سسٹم بھی معطل پڑا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ صبح ایئرپورٹ پہنچنا ہے یعنی جس دن ہم نکلے اس کے دوسرے دن صبح پانچ یا چھہ بجے کی فلائٹ تھی۔
ہم ٹنڈو رحیم سے چھنی (منچھر جھیل کا کنارہ) تک اونٹوں پر پہنچے، والدہ اور اس کے دو بچے یعنی میں اور میری ہمشیرہ صبح تک چھنی پہنچ گئے، وہاں سے ہم ایک بڑی کشتی میں سوار ہوئے،ہمارے چچا مرحوم ہمیں کراچی ایئرپورٹ پر چھوڑنے جا رہے تھے۔کشتی کو شاید بھان سید آباد تک جانا ہوا تھا لیکن پورا دن لگ چکا تھا۔ شام کو وہاں سے حیدر آباد اور پھر حیدر آباد سے کراچی۔ ہم جب کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو دوسرا دن ہو چکا تھا۔غالباً صبح آٹھ بجے ہوں گے ہم کراچی ایئر پورٹ (جسے آج کل ٹرمینل ون یا پرانا ایئر پورٹ کہا جاتا ہے) پر تھے لیکن معلوم یہ ہوا کہ جس فلائٹ پر ہماری ٹکٹیں یا نشستیں تھیں وہ جاچکی، ہمیں یہ سن کر بہت دھچکا لگا۔
مقامی ایجنٹ سے رابطہ ہوا تو اس نے کہا کہ کراچی میں ہی ٹھہریں دوسری فلائٹ سے آپ کو روانہ کردیا جائے گا۔ کراچی میں ہماری کوئی جان پہچان نہیں تھی ہم نے دیکھا کہ ایئر پورٹ کے ارد گرد جھاڑیوں میں زائرین کی بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود تھی سو ہم نے بھی ڈیرہ جما لیا۔ ایک دن،دو دن،تین دن، ہمارا ایجنٹ غائب ہو چکا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک شام چچا بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے جلدی جلدی اب نکلنا ہوگا اور میں نے اپنے کانوں سے سنا ایک شخص کو یہ بولتے دیکھا‘‘سندھیو اب تم لوگوں کی حکومت گئی‘‘، مجھت تب تک نہیں پتا تھا کہ وہ کون تھا،یا ایسا کیوں بول رہا تھا لیکن یہ 5 جولائی 1977ء کی شام تھی جب ہم جلدی جلدی نکلے،ٹیکسی نے سہراب گوٹھ پر چھوڑا ہم واپس گائوں آگئے۔
دو سال کے بعد والد صاحب اچھے خاصے پیسے کما کر بخشل خان سے حاجی بخشن بن کر وطن آگئے،ہم واپس باندھی منتقل ہوگئے، نیا کچا مکان بھی بنا لیا، میرے لیے ایک بڑا ٹیپ ریکارڈ بھی آ چکا تھا خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھیاور میں گورنمنٹ ہائی اسکول باندھی میں داخل ہو چکا تھا۔
سیاست کا زیادہ پتا تو نہیں تھالیکن جنرل ضیا الحق ملک کے سربراہ بن چکے تھے،اخبارات کی بڑی سرخیاں روز بھٹو کے بارے میں ہوتی تھیں، ہمارے چھوٹے سے شہر باندھی میں رات کو بی بی سی کی خبریں سننے کے لیے ریڈیو کے گرد لوگ جمع ہوتے تھے۔
ملک میں ہنگامے تھے،احتجاج تھا، ہم بچے آپس میں کھیلتے تین گروپوں میں تقسیم تھے۔ کچھ بچے (اردو بولنے والے)جماعت اسلامی کے حامی تھے تو کچھ بچے بھیج پگارا کا نعرہ لگا کر بھٹو کا گالی دیتے تھے اور ہم جیے بھٹو والے بچے تھے، ہم نو ستارہ(پاکستان قومی اتحاد میں نو جماعتیں تھیں اور ان کے پرچم پر نو ستارے تھے) والےتھے سو اسی کا نام لے کر بچکانہ گالی دیتے تھے۔
ایک دن بابا والد کے ساتھ ہم باندھی سے نواب شاہ شہر پہنچے، ریل گاڑی ہی جاتی تھی چھک چھک والی،صبح سویرے۔ بابا کو کلاتھ مارکیٹ نواب شاہ میں کپڑے لینے تھے۔ مجھے اور میری بہن کو شہر گھمایا پھرایا، کھلایا پلایا۔ مارکیٹ میں کپڑوں کی دکانوں پر ہی ابا کپڑے تلاش کر رہے تھے۔ بازار میں اچانک شور مچا، لوگوں نے دکانوں سے باہر نکل کر تالیاں بجائیں، ہر طرف نعرے لگ رہے تھے، مٹھائیاں تقسیم ہونے لگیں، بابا کا موڈ بہت خراب ہوگیا،دکان پر کپڑے دیکھنا چھوڑ کر کہنے لگے‘‘چلو بچو جلدی گھر چلنا ہے، بھٹو کو پھانسی ہوگئی’’۔ یہ 4 اپریل 1979ءکا دن تھااس دن کے بعد ہمارے چھوٹے سے شہر میں اکثریت کو اردو بولنے والی اقلیت سے بہت نفرت ہونے لگی تھی۔ بچوں کو خصوصی طور پر منع کیا گیا تھا کہ شہر میں بٹنے والی مٹھائی لے کر جو بھی کھائے گا اس کی پٹائی ہوگی۔میرے ذہن پر پانچ جولائی کا دن آج بھی ایک بھیانک دن کی صورت میں سوار ہے۔
(از طرف: عاجز جمالی،میری غیر مطبوعہ سندھی کتاب کا ایک ٹکڑا)