پاکستان میں موجود قوم پرستی کی بدترین سیاست کی وجہ سے الطاف حسین نے ایم کیو ایم قائم کی ، یہ تنظیم درعمل اور بہت سی درست وجوہات کی بنیاد پہ بنی یہ بات تو خیر راسخ ہوچکی کہ ردعمل میں بننے والے گروہ یا شخصیات اعتدال پہ نہیں رہتے سو یہی ایم کیو ایم کے معاملے میں بھی ہوا اور اس تنظیم نے مار دھاڑ تشدد کے نت نئے ریکارڈ بنائے ، یہ بات سب جانتے ہیں کراچی میں بھتہ کلچر کی ابتداء متحدہ نے کی اور بعد کے برسوں میں پیپلز امن کمیٹی اے این پی اور سنی تحریک و دیگر نے اسے انتہا تک پہنچایا انہی مذکورہ جماعتوں نے رنگ نسل کی بنیاد پہ قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم کیا ۔
عام ہندوستانی یا اردو اسپیکنگ جسے بعض متعصب لوگوں نے مکڑ مٹروے پناہ گیر جیسے القابات دئیے اسی سوچ نے الطاف حسین کو پیدا کیا اور انہوں نے اپنی قوم کو مہاجر کے نام سے نئی شناخت دی اور بلاشبہ نچلے طبقے کے لوگوں کو پارلیمان تک پہنچایا یہ بھی یاد رہے کہ ھند سے آئے بعض مہاجرین اپنی تہذیب و تمدن کو، یہاں پہلے سے آباد قومتیوں سے برتر خیال کرتے تھے اس غرور نے بھی کچھ مسائل کو جنم دیا، لیکن اسکے باوجود عام پاکستانی اردو بولنے والوں کو بابو لوگ یعنی پڑھا لکھا اور شریف کہا کرتا تھا بجا طور پہ ایسا تھا بھی اور اب بھی ہے ۔
کراچی ہمیشہ اپوزیشن کا شہر رہا آمریت کے خلاف تحاریک چلائیں ایوبی جبر کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا انہی دنوں سندھی اردو اور پشتو بولنے والوں کے درمیان ابتدائی تصادم ہوئے جس نے فضاء میں تلخی بھر دی ۔ یہ تلخی تب زہر میں تبدیل ہوئی جب کراچی کے سرسید کالج کی طالبہ بشری زیدی ایک بس ایکسیڈیٹ کی وجہ سے جاں بحق ہوئی اسکے فوری بعد پشتون مہاجر خونی تصادم کا سلسلہ شروع ہوا جو وقفے وقفے سے حالیہ آپریشن تک جاری رہا ، بے گناہ مہاجر و پشتون اس جنگ کا ایندھن بنے بعد میں آفاق احمد و الطاف حسین کے کارکن مہاجروں کے باہمی قتل عام میں مصروف رہے پنجابی و سندھی بھی اس لڑائی میں کام آئے بعد ازاں پیپلز پارٹی کے تعاون سے بننے والی پیپلز امن کمیٹی نے مہاجر بلوچ تصادم کو عروج بخشا ۔
جنرل ضیاء سے ایم کیو ایم کے تعلقات بہتر رہے وہ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں سندھو دیش کا نعرہ لگانے والے جی ایم سید اور مہاجر قومی موومنٹ کے الطاف حسین کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھنے والوں میں سے تھے ، ایم کیو ایم پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن او ر ق کے ساتھ بھی حکومتوں کا حصہ رہی اور اقتدار کے مکمل مزے لوٹے ساتھ ہی مشرف جیسے آمر کا ایم کیو ایم نے ہر فورم پہ بھرپور ساتھ دیا ، لال مسجد آپریشن کی حمایت میں سب سے زیادہ موثر مہم الطاف حسین نے چلائی عدلیہ مخالف تحریک کے رو ح رواں بھی متحدہ قائد ہی تھے ۔
مہاجروں کو ملنے والی شناخت ،پارلیمان میں نمائندگی اور نچلے طبقے کا ابھرنا یہ وہ بنیادی وجوہات تھیں یا ہیں جس کی وجہ مہاجر الطاف حسین کے طلسم کے اسیر ہو کر رہے ۔ یہ الگ پہلو ہے اس دوران ایم کیو ایم کی صف اول دوم قیادت میں شامل رہنماء و کارکن بدعنوانی ، بھتہ خوری اور چائنہ کٹنگ کے زریعے اربوں میں کھیلنے لگے ۔ خوف ایم کیو ایم کا بڑا ہتھیار رہا یہاں تک کے ایم کیو ایم کارکن خود کو ھندی فلموں میں گینگسٹرز سے منسوب اصطلاح’’ بھائی لوگ‘‘کے نام سے مخالفین میں خود کو متعارف کرانے میں خوشی محسوس کرتے ۔
متحدہ کی نئی نسل اس بات سے بڑی حد تک لاعلم رہی کہ پارٹی کے ابتدائی نعروں میں مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے محصورین کی واپسی اور کوٹہ سسٹم کا خاتمہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ وہ تو پیدا ہی اسی نعرے کیساتھ ہوئے کہ منزل نہیں رہنماء چاہئے یا پھر ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف حالیہ عرصے میں متحدہ نے دوبارہ کوٹہ سسٹم سے متعلق اپنے مطالبات کو دوھرایا ہے لیکن اب یہ گئے وقت کو آواز دینے جیسا ہے ۔
ایم کیو ایم کے قیام سے قبل یقیناً دیگر چھوٹی قومیتوں کی طرح مہاجروں کے بھی بہت سے مطالبات جائز تھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے شکایات تھیں کہ سرکاری نوکریوں میں حصہ نہیں دیا جاتا ‘ نفرت و تضحیک کا رویہ رکھا جاتا اس میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دنوں کراچی کا تعلیمی شہری و طبی نظام بہرحال آج سے لاکھ درجے بہتر تھا یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جس شہر میں کبھی ٹرام چلتی تھی اب چنگچی پہ گزارہ ہے ۔
گزرے پچیس تیس برس کا غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کیا جائے تو چند ہولناک انکشافات سر اٹھائے کھڑے ہیں مثلاً کراچی کا تعلیمی ، طبی اور تہذیبی قتل عام ہوا ہے ، نسلی و لسانی سیاست کی بھینٹ چڑھنے والے ہزاروں انسانوں کا تو ذکر ہی نہ کریں ، اپنی پالیسی کے مطابق سرکاری اداروں میں متحدہ نے کارکن بھر دئیے جن کی پہلی ذمہ داری پارٹی و قائد سے وفاداری وغیرہ تھی بعد میں عوامی خدمت ۔
قوت رکھنے کی وجہ سے کسی افسر میں جرات نہیں تھی کہ پارٹی کارکن نما سرکاری ملازمین کی غیر حاضری ،دفتر میں سیاسی سرگرمیوں اور چندہ وصولی سیمت دیگر اقدامات کی پوچھ پاچھ کرے نتیجہ یہ ہوا کہ تمام شہری ادارے بری طرح سے برباد ہوگئے میرٹ کی دھجیاں ایم کیو ایم و پیپلز پارٹی نے مل کر اڑائیں اور جواب دہی کے احساس سے برات نے کارکنوں کے وارے نیارے کردئیے ۔
گو کہ ان اداروں کی تباہی میں پیپلزپارٹی کا بھی مکمل ہاتھ رہا ، لیکن پڑھے لکھے ہونے کا دعوی متحدہ کا ہے تو اسی مناسبت سے قصور انکا زیادہ ہے یہ حقیقت ہے کہ ہم کسی جرم یا گناہ کو محض اس بنیاد پہ درست نہیں قرار دسکتے کہ فلاں شخص ، جماعت یا قومیت بھی تو ایسا کرتی ہے یہی تو پڑھے لکھے اور جاھل میں فرق ہے ، ویسے یہ الگ پہلو ہے کہ ان اداروں میں دونوں جماعتوں نے ملکر بدعنوانی کی اور بہت ہی خوب کی ۔
مشرف حکومت متحدہ کا سنہری دور کہلاتا ہے جب مری ہوئی ایم کیو ایم میں آمر نے سیاسی روح پھونکی اس دوران کوٹہ سسٹم اور محصورین کا معاملہ نمٹ سکتا تھا لیکن تب تک پارٹی کی ترجیحات تبدیل ہوچکی تھیں اور سوائے پیسہ بنانے کے کسی دوسرے معاملے میں دلچسپی نہیں رہی ان دنوں بابر غوری کے زمینوں پہ قبضے کے چرچے اتنے عام تھے کہ خود پارٹی کے حلقوں میں ان علاقوں کو غوری آباد کے نام سے یاد کیا جاتا ، جہاں انہوں نے رہائشی و تجارتی عمارتیں کھڑی کر رکھی تھیں ۔
حالیہ آپریشن جو کہ لگ بھگ دو سال قبل شروع ہوا ، کے آغاز میں ایک دوست کا خیال تھا کہ متحدہ شدید ردعمل ظاہر کرے گی اسکے خیال میں انیس سو بانوے کی متحدہ تھی ۔
لیکن وہ فیز مکمل طور پہ گزر چکا تب ریاست سے لڑنے والوں کی اکثریت ماری گئی یا فرار ہوگئی اور جو چھوٹے کارکن تھے انہیں پیسوں کی اتنی لت لگ چکی کہ کم از کم ریاست سے لڑنے کا ان میں دم نہیں ، متحدہ کا اس آپریشن پہ سب سے بڑا ری ایکشن میڈیا گھروں پہ حملہ تھا جو کہ اپنی اصل میں خود متحدہ ہی پہ حملہ تصور ہوا ۔
باوجود اسکے کہ کارکن الطاف حسین سے عقیدت رکھتا ہے لیکن کم از کم اب اس حوالے سے بندوق اٹھانا ممکن نہیں رہا بلوچ عسکریت پسند یا طالبان جس طرح ریاست سے ٹکرائے اسکے لیے صرف بیرونی امداد کافی نہیں ہوتی مذہبی یا قوم پرستانہ جذبے کا ہونا بھی بہت ضروری ہے ، جو کہ بلوچ و طالبان میں نظر آیا جبھی ان پہ قابو پانے کے لیے ریاست کو ایک خوفناک جنگ لڑنا پڑی ۔
ایم کیو ایم کی دہشتگردی اس نوعیت کی تھی کہ کنڈیکٹر مار دیا چوکیدار یا مزدور کو موت نیند سلادیا مخالف سیاسی کارکن کو قتل کردیا، ماضی کی بات اور تھی جب ایم کیو ایم نے فوج و سرکاری ملازمین پر حملے کیے یا ان پولیس والوں کا قتل عام کیا جو اسکے خلاف آپریشن کا حصہ بنے ، لیکن یہ بھی یاد رہے ان میں سے بیشتر قاتل پکڑے گئے یا وہ ملک سے فرار ہیں البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان واقعات کے بعد پولیس فورس کا مورال گر گیا اور چوہدری اسلم جیسے افسر نے بھی ایم کیو ایم کے ساتھ سمجھوتہ کیا ،ترقی پائی ۔
الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقاریر کے بعد جس طرح فاروق ستار نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے اس پہ ہمارے بعض حلقے مطمئن نہیں ہورہے اور اسے چال قرار دیا جارہا ہے ‘حالات کا تجزیہ کیا جائے تو فی الحال یہی بہترین پالیسی ہے کہ اصل ایم کیو ایم کو نہایت حکمت کے ساتھ الطاف حسین سے الگ کردیا جائے بظاہر فاروق ستار یہی کر رہے ہیں ، ہاں کل کو اس میں کوئی ڈرامہ نکلا تو پھر ہمارے ادارے ہر طرح کے اقدام کے مجاز ہوں گےکوئی ان پہ انگلی نہیں اٹھاسکے گا درحقیقت یہ پاکستان میں موجود قیادت کو موقع فراہم کرنے جیسا ہے ، یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم الطاف حسین ہے اور الطاف حسین ایم کیو ایم لیکن اس بار معاملات قدرے مختلف ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کا عام ورکر الطاف حسین کو ساری خامیوں کے باوجود مائی باپ سمجھتا ہے ایسے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ فاروق ستار کی ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہوگا ؟ بہت سی باتیں صرف سوچی جاسکتی ہیں ، سب سے اہم یہ ہے کہ کیا عام مہاجر ووٹر فاروق ستار کے اس فیصلے کی تائید کریگا ؟ کیونکہ ووٹرز ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ الطاف حسین کا بہرحال عقیدت مند ہے ، ایم کیو ایم کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس نے الطاف حسین کے خلاف کی جانے والی کسی بھی بات کو براہ راست مہاجر مخالفت سے جوڑ دیا باوجود اسکے کہ ایم کیو ایم ہی مہاجروں کی نمائندہ جماعت ہے لیکن یہ بھی خیال خامی ہے کہ ہر مہاجر الطاف حسین کا حامی ہے ۔ اس سارے پہلو میں اس بات کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے کہ مہاجر چاھے ایم کیو ایم میں ہو یا نہ ہو وہ بغیر کسی شک کے اسلام و پاکستان سے محبت کرتا ہے اس کا ثبوت گزرا یوم آزادی ہے جسے کراچی کے مہاجروں نے اس انداز سے منایا کہ لطف آگیا ۔