مقامی حکومتوں کے ادارے ہی ہیں جن کے ذریعے جمہوری قدروں کو فروغ دیا جاسکتا ہے اس لیے کہ مقامی حکومت کے ادارے شہریوں کو حقوق و فرائض سے آ گاہی کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوکر اپنے ملک کی ترقی میں کردار ادا کرسکیں .یہ ادارے نہ صرف عوام میں اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے راہیں تلاش کرنے کا شعور بیدار کرتے ہیں بلکہ عوامی نظم و نسق کا تجربہ حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ تجربہ قومی سطح پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں میں شامل ہونے سے لوگوں کو نہ صرف اپنے علاقے کی انتظامیہ کو سمجھنے اور چلانے کا شعور ملتا ہے بلکہ لوگوں کو اعلیٰ سطح کی صوبائی اور مرکزی انتظامیہ اور دیکر سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی انتظامیہ کے معاملات کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل کافی حد تک مکمل ہوچکے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے بے اختیار مئیرز اور ڈپٹی مئیرز اپنے اپنے شہروں میں کس طرح سے اپنی خدمات سرانجام دینگے، دیگر صوبوں کی طرح بالاآخر سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کا اہم مرحلہ مکمل ہوگیا 24 اگست 2016 کو صوبہ سندھ کے اضلاع میں مئیر , ڈپٹی مئیر , چئیرمین وائس چئیرمین کے انتخابات ہوہی گئے۔سندھ میں مئیر، ڈپٹی مئیر ، چئیرمین اور وائس چئیرمین کے انتخابات میں دیہی سندھ میں جیالے اور شہری سندھ میں حق پرستوں کو فتوحات نصیب ہوئیں. سندھ میں ہونے والے مئیر اور ڈپٹی مئیر کے الیکشن میں سب کی نگاہیں شہری سندھ پر تھی کہ آیا تین سالہ کراچی آپریشن میں براہ راست نشانہ بننے والی متحدہ قومی موومنٹ اپنا مئیر لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر 5 جماعتی اتحاد کامیاب ہوتا ہے مگر شہری سندھ کا فیصلہ آج بھی حق پرستوں کے حق میں گیا اور کراچی کی مئیر شپ کا تاج ایم کیو ایم کے وسیم اختر کے نام رہا جوکہ 19 جولائی سے ڈاکٹر عاصم کیس اور دیگر الزامات کے باعث پولیس کی زیرحراست ہیں۔
نومنتخب مئیر وسیم اختر جوکہ اپنے جذباتی انداز کی وجہ سے کافی مقبول ہیں اب میٹروپولیٹن سٹی کراچی کے مئیر کا عہدہ سنبھال کر شہر کراچی کے لیے اپنی خدمات سرانجام دینگے، وسیم اختر کو پولیس کی تحویل میں کے ایم سی آفس لایا گیا جہاں انھوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا ، منتخب مئیر وسیم اختر نے کے ایم سی کے دفتر کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف متحدہ کے مئیر نہیں بلکہ پورے شہر کراچی کے مئیر ہیں اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم بھی ظاہر کیا ، اس کے علاوہ نومنتخب مئیر نےڈی جی رینجرز اور دیگر کو مخاطب کرتے ہوے رہنمائی کی خواہش بھی ظاہر کی کہ وہ انکی رہنمائی کریں تاکہ مل کر شہر کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جاسکیں ، شہر کراچی کے مئیر وسیم اختر اور ڈپٹی مئیر ارشد وہرہ ہیں. اس کے علاوہ شہری سندھ کے دو بڑے شہروں میرپورخاص اور حیدرآباد میں بھی ایم کیو ایم اپنے چئیرمین وائس چئیرمین اور مئیر ، ڈپٹی مئیر لانے میں کامیاب رہی. سکھر لاڑکانہ بدین اور دیگر میں پیپلزپارٹی کے جیالے کامیاب ہوئے۔
مقامی حکومت کے آخری مرحلے کے بعد جمہوریت کی اصل روح کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومت کے منتخب نمائندوں کو بے اختیار کرنے کے بجائےانہیں بااختیار بناکر عام عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے صوبائی حکومت مدد کرے تاکہ عام شہریوں کو ریلیف مل سکے جوکہ گزشتہ 8 سالوں سے نہیں مل پارہا ہے.مقامی حکومت کے انتخابات کے حوالے سے عام عوام کی ملی جلی رائے پائی جاتی ہے کہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ مقامی حکومت کے قیام سے کافی حد تک مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے مگر اسکے لیے کوئی ویژن اور پلان ہونا لازمی ہے جس کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے ۔ بہت سے لوگوں کا تاثر ہے کہ جب پیپلزپارٹی نے براہ راست حکومت میں شہر کراچی ، حیدر آباد ، لاڑکانہ، سکھر اور دیگر شہروں کے لیے کچھ نہیں کیا تو وہ بلدیاتی نظام کے ذریعے بھی سندھ کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کرسکتے،کچھ کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے شہروں کو پستی کی طرف دھکیل دیا ہے تو اس سے کیا کوئی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مقامی حکومت کو کوئی اختیارات دیں گے بشرطیکہ جس طرح سپریم کورٹ کے حکم پر انتیخابات کرواے گئے ہیں اسی طرح سپریم کورٹ مقامی حکومت کو بااختیار بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تاکہ مقامی حکومت کے قیام کا اصل مقصد پورا ہوسکے۔
قائداعظم کے قریبی ساتھی اور عظیم سیاسی مفکر چوہدری مشتاق ورک آف کلے ورکاں کے خیال میں کہ ’’ پاکستان میں اختیارات کی عوام تک منتقلی کے بغیر نہ تو ترقی کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی عوامی خوشحالی کی ضمانت دی جاسکتی ہے لہذا کوئی بھی حکمران اگر حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے تو اسے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنانا ہوگا۔
ماضی میں روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا پہچانے جانے والا شہر کراچی پیپلزپارٹی کے بدترین 8 سالہ دور کے باعث آج کچرے کا ڈ ھیر بن گیا ہے ، ہر طرف بدامنی، بگڑتا ہوا شہر کا انفرااسٹریکچر اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری جو کہ سندھ حکومت کے لیے بڑا چیلنج تھا دیکھنا یہ ہے کہ مئیر کراچی ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا کیا کردار ادا کرینگے؟۔
کراچی ، حیدرآباد ، میرپورخاص،سکھر ،لاڑکانہ ترقی یافتہ شہروں کی صف میں کھڑے ہوسکیں گے یا نہیں یہ تو وقت بتاے گا مگر یہ سب سے بڑا چیلنج تو پیپلزپارٹی کے لیے ہے کہ مسلسل 8 سال سے سندھ میں حکمرانی کرنے والی پیپلزپارٹی کیا اب دیہی سندھ میں مقامی حکومت کے قیام کے بعد دیہی سندھ کو ترقی یافتہ شہروں کی صفوں میں لاکھڑا کرسکے گی یا نہیں ؟۔