کراچی میں حساس ادارے کی گاڑیوں پر حملے ، کوئٹہ میں حالیہ دھماکے ، راولپنڈی میں چھرا گروپ کی وارداتیں ، لاہور میں بچوں کا اغوا ، خون ، چیخ و پکار ، بے بسی اور فریاد ۔ کیا یہی پاکستانی قوم کا مقدر رہ گیا ہے؟۔
اس طاقت اور جاہ و حشم کی جنگ میں کون جیتا ، کون ہارا یہ کہانی تو الگ رہی نقصان تو صرف پاکستان کا ہی ہوا اس پاکستان کا جس کے تعلیم یافتہ نوجوان ، محنت کش دہقان ، ادیب و شاعر ، ثقافتی ورثہ ، اسکی سب شناخت کوایک منظم سازش کے تحت ختم کیا جا رہا ہے ۔
عوام کے خواب بکھیر دئیے گئے ، خوشیاں تباہ کرد ی گئیں ۔ پاکستان کا برا امیج ہی باقی رہ گیا ۔ کلاشنکوف کلچر ، مار کٹائی ، غیرت پر قتل ، بچوں کے ساتھ زیادتی ، ضیاالحق کی پالیسیوں کا تسلسل ہمارے اچھے پاکستان کے تصور کو مسخ کر رہا ہے اور خدا معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ؟۔
اس سب تمہید کا مقصد اپنے ملک کے سیکورٹی اداروں کو قطعا تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے ہمیں تو صرف غیر جانب دارانہ طریقے سے اپنی رائے پیش کر دینا ہے ۔ آج تو صرف اتنا کہنا ہے کہ اپنے اندر دہشت گردوں جیسا اتحاد تو پیدا کر ہی لیں ۔ کہتے ہیں ناں کہ اچھا کام تو آپ دشمن سے بھی سیکھ لیں ۔ چھوٹے بچوں کی برین واشنگ ، نوجوانوں کی مسلح تربیت ، درحقیقت غلط اور قبیح فعل ہے لیکن جس منظم طریقے سے یہ کیا جاتا ہے اسکی داد تو دینا ہی ہو گی۔
دہشتگردوں جیسی منافقت ہمیں پیدا نہیں کرنا ہے کہ ایک طرف اللہ اکبر کے نعرے لگائے جائیں اور دوسری جانب مخلوق خدا کو تباہ کر دیا جائے ہاں اگر نقل کرنی ہے تو سیکورٹی کا نیٹ ورک مضبوط بنایا جائے تاکہ انتہا پسندوں کا نیٹ ورک کامیاب نہ ہو سکے ۔ اتنا اتحاد تو اب ہمیں سیکھ ہی لینا چاہیے ۔
میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی لیکن کہیں نہ کہیں تو ہم میں کمی ضرور ہے ۔ جس کو ہم سب جانتے تو ہیں لیکن اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں ۔ یہاں بات اجتماعی رویوں کی ہو رہی ہے ۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں ہمارے کوئٹہ کے باشندوں نے بہادری سے جانیں دیں ، وکلا اور میڈیا نے قربانیاں دیں ، امجد صابری شہید ہو گئے ، خرم ذکی کو خاموش کر دیا گیا اور ہم کیا کر سکتے ہیں کیونکہ ’’قوم ‘‘ قربانی مانگتی ہے ۔ آزادی اس خون کا تقاضا کرتی ہے ۔
لیکن جب دہشتگردی کا یہی الاؤ ہمارے گھروں تک آتا ہے تب ہم ’’قوم ‘‘ کے لئے ’’قربانی ‘‘ نہیں دیتے ، تب ہم آزادی کی قیمت ادا نہیں کرتے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہم یا ہمارا کوئی بھی پیارا قربان ہو جائے ۔ فوج حکومت اور حکومت فوج سے نالاں دکھائی دیتی ہے ۔
کوئی شہید ہوتا ہے یا کوئی دھماکے میں جان دے دیتا ہے بس امداد مل جاتی ہے لیکن کیا پچاس ساٹھ کروڑ بھی ایک قیمتی جان کے نقصان کا ازالہ کر سکتےہیں ؟ کیا متاثرہ خاندان کے دکھوں کا مداوا یہ پیسہ کر سکتا ہے ؟۔
وقت تو اب بھی سنبھلنے کا ہے ، یہ فرق مٹانے کا ہے کہ آج شیعہ مر گیا ، آج سنی اپنی جان سے گیا ، آج احمدی ، ہندو یا عیسائی مارے گئے ۔ وقت ہے صرف سنی ، عیسائی ، احمدی اور ہندو کی جگہ ’’انسان ‘‘ لکھنے کا ۔