The news is by your side.

نیت صاف منزل آسان

پاکستان کے ایک مخصوص طبقے کی رو سے بات کر رہا ہوں ماشاء اللہ سے ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے پیٹ بھر کے کھانے کو میسر دستر خوان، تن کو اوقات سے بہتر طریقے سے ڈھانپنے کیلئے کپڑے، بچوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے معقول ذرائع وغیرہ وغیرہ اگر نہیں ہے تو کمبخت آزادی نہیں ہے۔ جس کی پاداش میں یہ لوگ اپنے ہر عیش و آرام کو جوتے کی نوک پر رکھ کر سرِراہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ خیر انسانیت کی تعظیم و تکریم کیلئے ایسی جدو جہد یں بہت ضروری ہوا کرتی ہیں جو تقاضہ کرتی ہیں کہ اگر ان کے بچے ہیں تو تنخواہ دار آیا اور اگر والدین حیات ہیں تو تنخواہ دار ملازمین ان کی دیکھ بھال کریں اور خود انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس کی توقیر کیلئے آزادی کا تعاقب کرتے رہیں۔ لیکن انہیں ان کا مطلوبہ حدف مل کر نہیں دے رہا۔

میرا خیال ہے اس مطلوبہ حدف یعنی آزادی کے نا ملنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو اس کے حصول کی نیت صادق نہیں یا آزادی بذات خود کوئی چیز ہی نہیں۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ دونو ںوجوہات یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ہو سکتا ہے آزادی کوئی شے ہی نہ ہو ہم محض ایک سراب کو دیکھ کر اس کی تمنا کیے بیٹھے ہوں ۔ اور اگر ہمارے لوگ اس کے نا ہونے کے باوجود کچھ دیکھ کر اسکے وجود کا اندازہ لگا ہی لیتے ہیں تو ان کی بے ایمان نیتیں ان کو اس کے حصول سے روک لیتی ہیں۔

ایک نیا نیا اسکول جانے والا بچہ بھی کچھ چیزوں کو اپنے ذہن میں رکھتا ہےجیسے کہ اسے کیا بننا ہے؟ کیسے بننا ہے؟ اور کیوں بننا ہے؟ مثلاً اُسے ڈاکٹر بننا ہے۔ اُسے اس طرح سے پڑھنا ہے کہ اس ادارے تک پہنچ سکے جہاں وہ ڈاکٹر بن سکے اور کیوں بننا ہے سے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہوسکتا ہے وہ اس شعبے سے متاثر ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب یہ تین سوال آپ کسی آزادی کے متقاضی سے پوچھتےہیں تو معاملہ الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ مطلب آزادی چاہیئے، آزادی کیوں چاہیئے اور کیسے ملے گی آزادی؟یہ وہ سوالات ہیں جو ذہنوں الجھائےدیتے ہیں۔ آزادی چاہیئے تاکہ ہر کام آزادی سے کیا جا سکے۔ گویا آزادی کو بطور مقصد نہیں بلکہ بطور آلہءِکار تصور کیا ہوا ہے اور یہ وہ بد نیتی ہے جو تحاریک کے جانثاران اور آزادی کے درمیان سیسہ پلائی دیوار کی طرح حائل ہے۔

یہاں پر ایک بات اور شامل کرنا ضروری ہےکہ ہمارے یہاں آزادی کو محض اجازت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ یا یوں کہیے آزادی کا مترادف اجازت استعمال کیا جا رہا ہے۔ در حقیقت یہ وہ عقلی سطح کا بگاڑ ہے جو تضاد کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے، مگر ہمارے عالم برادرانِ آزادی ذہنی طور پر اتنے تگڑے ہی نہیں جو اس تضاد کوپکڑ سکیں۔آزادی کی ضمانت تو صرف دی ہی اس وقت جا سکتی ہےجب معاشرے میں اجازت کا امر معطل ہو جائے۔ اجازت کی معطلی دوسروں کی زندگی میں مداخلت کی صورت نہیں بلکہ اپنی ذاتی زندگی کی سرپرستی کیلئے۔ پھر معاشرہ صحیح آزاد ہوگا۔ آزادی بحیثیت آلہءِ کا ر عمل میں نہیں آئے گی بلکہ ایک مقصد ، ایک قدر کی شکل میں معاشرے کی توجہ کا مرکز بنے گی اور معاشرے میں اس بحث کا خاتمہ کردے گی کہ اسے فلاں چیز کی آزادی ہونی چاہیئے، اسے فلاں چیز کی آزادی ہونی چاہیئے، جو کہ ایسا رویہ ہےجو ہر دوسرے روز کسی نہ کسی بہانے سے میدان سجاتا رہے گا۔

مختصراً یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ آزادی کے متقاضی ذہنی طور پر آزادی کیلئے تیار نہیں۔بلکہ آزادی کو اس کی اصل ہیئت میں دیکھا ہی نہیں اور اتنی ہمت بھی نہیں کہ دیکھ سکیں۔ یہ محض ایک لفظ نہیں ایک طرز زندگی ہے اور طرز زندگی بھی بے شک ایک فرد کا ہے مگر اس کا اطلاق پورے معاشرے پر ہوتا ہے۔ چند سطور قبل عرض کی کہ یہ کوئی اجازت نہیں جو کوئی بھی کام کرنے سے قبل حاصل ہو۔ بلکہ یہ تو اس دھیان کی غیر موجودگی ہےاور اس فکر کی عدم دستیابی ہے جس کے نتیجے میں اجازت لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہٰذا لوکل آزادیکی تحریکوں سے میں جو بھی سمجھ پایا ہوںوہ بات اتنی سی ہے کہ آزادی کے متوالے صرف چاہتے ہیں کہ ان کے کسی بھی کام کے سرانجام دینے کیلئے کھلی اجازت ہو جبکہ معاملہ اتنا آسان نہیں۔ مدعا تو اس شے کی معطلی کا ہے جس کیلئے سب سے پہلے اپنوں کی طرف سے بے حسی ، بے دیہانی اور بے فکری کا جبر برداشت کرنے کی ہمت پیدا کرنی ہوگی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں