The news is by your side.

کم عمری کی شادیاں ‘ کیا روک تھام ممکن ؟

شادی ایک مذہبی ، معاشرتی اور اخلاقی فریضہ ہے جو خاندانی بقا کا بھی ضامن ہے اور معاشرتی اقدار کی پاسداری کا ذریعہ بھی۔لیکن کیا کم سنی کی شادی اچھی اور کامیاب ثابت ہو سکتی ہے؟ کیونکہ شادی بذات خود ایک ذمہ داری کانام بھی ہے۔ موضوع بحث تو یہ ہی ہے کہ کم سنی کی شادیاں  صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہو رہی ہیں اور براعظم افریقہ میں ان کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق یہاں سالانہ 125 ملین ایسی شادیاں ہوتی ہیں اور اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو انکی تعداد 2050 میں 310 ملین سالانہ تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں اب بھی سب سے زیادہ جبری اور کم عمری کی شادیاں سندھ ، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں ہوتی ہیں۔

child-marraige
سوال یہ ہے کہ کم سنوں کی شادیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ اسکی پہلی بڑی وجہ تو غربت ہے۔ غریب والدین روپوں اور پرتعیش زندگی کے لئے اپنی معصوم بچیوں کی زندگیوں کا سودا کر دیتے ہیں۔ جبری شادیوں کی ایک بڑی وجہ وٹہ سٹہ بھی ہے کیونکہ ایک رشتے کی کامیابی پر دوسرے کی کامیابی کا انحصار کر لیا جاتا ہے۔ اندرون سندھ اور قبائلی علاقوں میں سوارہ اور ونی جیسی فرسودہ رسمیں عام ہیں جہاں خون بہا نہ ہونے کی صورت میں مجرم محفوظ رہتا ہے اور اسکی کم سن بہنیں ،بیٹیاں ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں۔

child-marraige-2
گذشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل میں کم سنی کی شادیوں کے حوالے سے ہونے والی بحث کسی طور پر بھی نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں۔پاکستان میں مسلم فیملی لاء آرڈیننس کے مطابق شادی کے لئے لڑکی کی عمر سولہ سال اور لڑکے کی عمر اٹھارہ سال رکھی گئی ہے اور بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن پر پاکستان نے 1990 میں دستخط کئے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے حال ہی میں کم سنی کی شادی پر پابندی کے حوالے سے ایک بل پیش کیا تھا جس کو اسلامی نظریاتی کونسل نے منظور نہیں کیا۔ کونسل کا موقف یہ تھا کہ اسلام میں کم عمری کی شادیوں کی مثالیں موجود ہیں۔ اور اس کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی عمر کی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ بھی کہا کہ رخصتی کے لئے بلوغت کا انتظار کرنا چاہیے۔

اب یہاں دو چیزیں او رقابل ذکر ہیں۔ ایک تو یہ کہ سندھ او رپنجاب اسمبلی پہلے ہی کم سنی کی شادی کے خلاف بل منظور کر چکی ہیں۔ پنجاب میں سولہ سال لڑکی اور اٹھارہ سال لڑکے کی عمر مقرر کی گئی ہے جبکہ خلاف ورزی کی صورت میں نکاح خواں یا ولی کو 50 ہزار جرمانہ اور چھ ماہ کی قید یا دونوں سزائیں بیک وقت دی جا سکتی ہیں ۔ جبکہ سندھ اسمبلی میں 2014 میں پاس ہونے والے بل کے مطابق شادی کے لئے بچی کی عمر اٹھارہ سال مقرر کی گئی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں تین سال قید اور 45 ہزار روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے ، اسکے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادی کو ناقابل ضمامت جرم بھی قرارد یا گیا ہے۔

child-marraige-3
سوال یہ نہیں ہے کہ کم عمری کی شادی کے لئے روک تھام کیا ہو رہی ہے یا کیا قانون سازی کی جا رہی ہے ؟ اہم صرف یہ ہے کہ لوگوں کا مائنڈ سیٹ کب تبدیل کیا جائے گا ، مذہب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا کب  ترک کیا جائے گا ؟

اس ظلم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں ، ہمارا قانون جو اب تک خاموش ہے ، ہمارے معاشرتی رویے جو جینے نہیں دیتے۔ ہماری بے بسی جو ہم یہی چاہتے ہیں کہ سب کچھ حکومت کا ہی فرض ہے۔ ہماری گھریلو تربیت جس میں یقیناًکوئی کجی رہ گئی ہے۔ ۔ہم اس سے بری الزمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم بہت آسانی سے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ قوم کی پہلی درسگاہ ان کی ماں کی گود ہے اور دوسری طرف ایک لڑکی سے ہی اسکے خواب چھین لئے جاتے ہیں ، اس کا مستقبل تاریک کر دیا جاتا ہے  اس وقت صرف یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا ایک لڑکی کو تحفظ دینا پورے  معاشرے کو تحفظ دینا نہیں ہے ؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں