The news is by your side.

نصاب نہیں ‘ اذہان بدلئے

دہشتگردی نہ صرف کسی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتی ہے بلکہ تعمیری ذہنوں کی صلاحیتوں کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں غربت اور جہالت کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی بھی سر فہرست ہے اگرچہ کہ دہشتگردی غربت اور ناخواندگی کی ہی پیداوار ہے ۔ ہماری حکومت ہو یا فوج اس سے نمٹنے کے لئے حتی الامکان مصروف عمل ہے ۔ پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں ’’ضرب عضب ‘‘ کے نام سے ایک فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے جو اب تکمیل کے مراحل میں ہے ۔ دوسری جانب ادارہ تعلیم وتحقیق کے زیر اہتمام انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے نصاب بھی تیار کیا جا رہا ہے ۔

انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے نصابی کتب کی تیاری

پاکستانی میڈیا کے مطابق ادارہ تعلیم و تحقیق دینی مدارس اور جامعات کے لئے ایک سمسٹر پر مشتمل کتاب کی تیاری میں مصروف ہے ۔جس کا مقصد طلبہ میں معاشرتی اقدار کی تفہیم اور سماجی ہم آہنگی کا فروغ ہے ۔ اس کتاب کا نام ’’سماجیات ‘‘ رکھا گیا ہے ۔جبکہ اس کو معروف دانش ور خورشید احمد ندیم اور ماہر تعلیم محمد حسین نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے ۔ اس کتاب کے بارے میں اجلاس بھی منعقد ہو رہے ہیں اور اسکی ایک مجلس نگران بھی ہے جس کی سرپرستی سابق چئیر مین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر خالد مسعود کر رہے ہیں ۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ یہ کتاب مکمل ہونے کے بعد بیک وقت دینی مدارس اور تعلیمی اداروں میں پڑھائی جائے گی ۔

پاکستان میں انتہا پسندی کی مختصر تاریخ ( پاکستان انسٹی ٹیوٹ  فار پیس اسٹڈیز ) کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ میں
ملک بھر میں دہشتگردی کے ساڑھے تیرہ سو واقعات ہوئے ہیں جبکہ سولہ دسمبر دو ہزار چودہ  کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میں فائرنگ ، دھماکے اور دہشتگردی کے نتیجے میں ڈھائی سو سے زیادہ معصوم بچے اور اساتذہ شہید ہوئے ہیں اور یہ تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے ۔

پاکستان میں ڈرون حملوں کا  آغاز دو ہزار چار میں ہوا جبکہ ۲۰۰۹ میں تشدد کے ۸۳۵ واقعات ہوئے جن میں پانچ ہزار دو سو اڑتیس افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ان حملوں میں ۶۳۶ عام شہری جبکہ ۳۵۰ سیکورٹی اہلکار بھی جاں بحق ہوئے اور عسکریت پسندوں کے مرنے کا تناسب  ۴۲۵۲ رہا۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں انتہا پسندی کا تناسب

پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک مجموعی طور پر دہشتگردی کا شکار رہا ہے لیکن کچھ علاقے ایسے ضرور ہیں جنہیں زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے ۔ جن میں خاص طور پر فاٹا یعنی قبائلی علاقہ جات ، کراچی اور کے پی کے کے چند علاقے شامل ہیں ۔

ساؤتھ ایشیا ٹیریزم پورٹل کے مطابق ۲۰۱۰ میں فاٹا یعنی قبائلی علاقہ جات میں کل ۶۷۲ واقعات دہشتگردی کے ہوئے ۔جن میں پانچ ہزار تئیس افراد نشانہ بن گئے ، چار سو نوے عام شہری اور دو سو اکتیس سیکورٹی اہلکاربھی جاں بحق ہوئے ۔ اب اگرکراچی کو  دیکھیں تو یہاں ۲۰۱۲کے صرف پہلے نو ماہ میں ۱۸۰۰ افراد قتل ہوئے ہیں ، کے پی کے میں اس طرح کےواقعات میں کمی رپورٹ کی گئی ہے۔ جس کے مطابق دو ہزار چودہ  میں ۱۸۳ ، ۲۰۱۳ میں ۱۷۳ ، ۲۰۱۲ میں ۱۳۴ ، اور ۲۰۱۵ کے پہلے چار مہینے میں ۸۵ واقعات رپورٹ کئے گئے ۔

دہشتگردی کے خاتمے کے لئے حکومتی اقدامات

پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے تین طرح کے ادارے کام کر رہے ہیں جن میں پولیس ، وفاقی ادارے اور سراغ رساں ادارے شامل ہیں ۔حکومت نے چند برس قبل قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی تشکیل دی ،لیکن اب تک کوئی موثر اقدام نہیں ہوا ۔
یکم جون ۲۰۱۰ کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عسکریت پسند ی سے متاثرہ فاٹا اور کے پی کے کے رہائشیوں کے لئے امدادی پیکجز کااعلان کیا جن میں ٹیکسوں میں رعایت ،  ڈیوٹیز میں کمی ، اور یوٹیلٹی بلز میں ریلیف شامل تھا ۔

دو ہزار پندرہ میں پنجاب میں دہشتگردی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے  خواتین پولیس اہلکاروں کو تربیت دی گئی ۔ اب ان تمام اقدامات کے ذکر کے بعد یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت اس حوالے سے ایک پیج پر ہے۔فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر رکھا ہے ، جنرل راحیل شریف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ آخری عسکریت پسند کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ دوسری طرف معروف دانشور اور تجزیہ کار پروفیسرحسن عسکری رضوی یہاں پر ایک الگ موقف کے ساتھ سامنے آتے ہیں ،انھوں نے  بی بی سی سے گفتگو میں کہا ’’کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاشرے کے لیول پر حکومتی سطح پر اور فوج میں بھی سوچ ایک سی نہیں ہے ۔ کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ وہ ہمارے دوست ہیں ان سے گفتگو کی جاسکتی ہے ، لیکن اگر وہ دوست ہیں تو پھر انسداد دہشتگردی کی پالیسی کی کیا ضرورت ہے ؟ جب تک یہ ادارے ایک سوچ نہیں اپنا لیتے اور اس بات پر متفق نہیں ہو جاتے کہ تشدد خواہ کوئی بھی کرے کسی بھی نام سے کرے کسی حوالے سے کرے اور اسے اسلام کا نام دے وہ قابل قبول نہیں‘‘ ۔

( بی بی سی ، شمائلہ جعفری ، ۱۰ جولائی ۲۰۱۳ )

مذہبی حلقوں کی دہشتگردی کے خلاف رائے

پاکستان علما  کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کہتے ہیں

’’انتہا پسندی صرف اسلامی دنیا میں نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی مذہب میں ہو اسکو مسترد کیا جانا چاہیے ۔ دہشتگردی دنیا کے کسی بھی ملک کے لوگ کریں اسے مسترد کیا جانا چاہیے کیونکہ بنیادی انسانی حقوق  کے راستے میں رکاوٹ یہی دو چیزیں ہیں جنہیں ہم انتہا پسندی اور دہشتگردی کا نام دیتے ہیں ۔‘‘

رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب  الرحمان کا خیال ہے

’’انسانیت کو جو گذشتہ دو عشروں سے زیادہ سے مسئلے درپیش ہیں تو اسکی صرف مذمت ہی کافی نہیں بلکہ اسکے اسباب کا کھوج لگایا جانا چاہیے اور ازالہ ہونا چاہیے تاکہ ساری دنیا کے لوگوں کو انصاف فراہم کیا جا سکے ‘‘۔

اہل تشیع کے اہم راہنما علامہ  ساجد نقوی نے بھی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے اقدامات کی موجودگی پر زور دیا ہے  

انھوں نے کہا  کہ حکومت کو چاہیے کہ دہشتگرد اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے ۔ انھوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں قتل عام ، دھماکوں اور بالخصوص شیعہ ٹارگٹ کلنگ کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔

حاصلِ بحث

ایک جانب دیکھیں  تو ہمیں بہت مشکل صورتحال نظر آتی ہے ، ہماری پولیس اور دیگر اداروں کے پاس جدید آلات اور ریسرچ کی کمی ہے ، انھیں پیشہ وارانہ تریبت نہیں دی جاتی ، ایک جانب وزارت داخلہ مدارس کی رجسٹریشن کی بات کرتی ہے تو کئی مذہبی جماعتوں کے تحفظات کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اب نصاب بنایا جا رہا ہے۔

انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے نصاب بنانا غلط کام نہیں لیکن خالی نصاب سے کچھ نہیں ہوگا جب تک کہ آپ لوگوں میں شعور بیدار نہیں کریں گے ، انتہا پسند ذہن غربت اورجہالت کی پیداوار ہوتے ہیں ، انتہا پسندی گھر سے شروع ہوتی ہے ، مدرسوں سے اور کئی تعلیمی اداروں سے جنم لیتی ہے ۔

انتہا پسندی انتقام کے جذبوں  سے پروان چڑھتی ہے اس سب پر غور کریں ، لوگوں کے ذہن بدلیں ، سوچ بدلیں انھیں یہ سکھائیں کہ معاشرے میں باقی لوگ بھی زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں ، یہاں خواتین بھی ہیں اور بچے بھی یہاں بوڑھے بھی ہیں اور اقلیتیں بھی،  کیوں نہیں ہم اپنے بچوں کو یہ چیز سکھا رہے ؟ کیا ہم  انہیں ایک کتاب دے کر بری الزمہ ہو سکتے ہیں ؟ یہ بات سوچنے کی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں