’’باجی میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا ، بھوکا ہوں ، یہاں سے اپنے لئے روٹی ڈھونڈ رہا ہوں ‘‘ یہ الفاظ ایک مصروف شاہراہ پر رکھے کوڑے دان میں سے کچھ تلاش کرتے ہوئے ایک معصوم سے بچے نے میرے سوال کے جواب میں کہے ۔ یہ سب بتاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں ایک خوف بھی تھا اور ساتھ ہی چہرے پر نقاہت کے آثار بھی ۔
میں لبِ سڑک کھڑی ہی سوچ رہی تھی کہ شاید اس نے کسی ہوٹل کے پاس جانے کی زحمت اس لیے نہیں کی ہو گی کیونکہ وہاں موجود امراء انسانیت کی تذلیلکریں گے ‘ اسے دھتکاریں گے اور اللہ کا دیا ہوا رزق خود ہی تقسیم کرنے لگیں گے ۔
کسی سے مانگنا اس کی غیرت کو گوارا نہیں ہوگا‘ اس لئے اس نے سوچا ہو گا کہ اسی گندگی کے ڈھیر سے ہی کچھ مل جائے ۔ کم ازکم یہاں آنے والے جانور ،کتے اور بلیاں اس کی غربت اور بے بسی کا مذاق تو نہیں اڑائیں گے ناں ۔
حیرت تو مجھے اس بات پر تھی کہ جس کوڑے دان سے وہ روٹی تلاش کر رہا تھا وہیں اس سڑک کے ایک کونے میں لکھا تھا کہ’’ یہاں پر روٹی اور اشیائے خوردو نوش پھینکنا منع ہے ‘‘، ساتھ ہی جلی حروف میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’رزق کی قدر ان سے پوچھئیے جن کے پاس ایک لقمہ نہیں ، کسی کو کھانا کھلا کر ثواب کمائیں ۔‘‘َ
یہاں سے تھوڑا آگے چلتے ہی ایک سینٹر ہے جہاں غربیوں اور مسکیینوں کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے ، لیکن نامعلوم کتنے ہی ایسے افراد روز یہاں سے کھانا کھاتے ہیں جنہیں اس احسان کی ضرورت نہیں ہوتی ، کھانا لینے کے لئے مستحق افراد کی قطار بہت لمبی تھی لیکن سب سے آخر میں کھڑے دو افراد یہ کہہ رہے تھے کہ’’ چلو یار اچھا ہوا آج بھی روٹی پانی سے جان چھٹ گئی‘‘ دوسرے نے کہا ’’ہاں دیکھو ہم روز سفید پوشوں کا بھیس بدلے یہاں آجاتے ہیں اور انھیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم غریب ہیں یا ‘‘؟ اگلا قہقہ بہت ہی جاندار تھا جو عموما بھرے پیٹ کا ہوتا ہے ۔
تیسری کہانی دو صحافیوں کی ہے جو ایک ٹیبل پر افطاری کر رہے ہیں ، ان کے سامنے دنیا جہاں کی اشیا موجود ہیں ، روزہ کھلنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی ہیں لیکن پلیٹوں میں کھانے کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں ۔ ایک صحافی دوسرے ساتھی سے کہنے لگا ’۔
آج کل اتنی مہنگائی ہےاور لوگ ایسے کھانا کھاتے ہیں جیسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو اور آخری مرتبہ کھا رہے ہوں
دوسرا ساتھی جو ایک دانشور صحافی تھا نے اعداد و شمار کی ایک لمبی تفصیل کھول لی ’’ بالکل میں تم سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں مسلمان ممالک میں اتنا کھانا ضائع ہو رہا ہے کہ کیا بتاؤں کل میں نے ایک رپورٹ پڑھی کہ مکہ المکرمہ میں تقریبات میں اتنا کھانا ضائع ہوتا ہے کہ اس سے ۱۸ ترقی پذیر ممالک کے ۱۷ فیصد بچوں کو خوراک فراہم کی جاسکتی ہے ۔ اور تو اور دنیا بھر میں خوراک کے قلت کا شکار ۴۸ لاکھ بچوں کو کھانا فراہم کیا جا سکتا ہے ، تمھیں پتہ ہے کہ سعودی عرب میں یومیہ ۳۵ ملین کھانا ضائع ہوتا ہے ہر سال ۱۳ ارب ڈالر کا کھانا ضائع کر دیا جاتا ہے ‘‘۔
دوسرا کہنے لگا ’’ چھوڑو تم کس بحث میں پڑ گئے یار، روزہ کھل گیا ہے کھاؤجو اتنا کچھ منگوایا ہے َ‘‘ افطار کے بعد بھی ان دونوں صحافیوں کی پلیٹوں میں خوراک موجود تھی اور اس پر مکھیاں بھنبنا رہی تھیں اور دونوں صحافی بل ادا کر کے اٹھ چکے تھے جبکہ ہوٹل کا بیرہ یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے تو روزہ میں صرف ایک کھجور کھائی تھی ۔
خوراک کی کمی کے حوالے سے عالمی اداروں کی جانب سے منعقد کئے گئے ایک پروگرام میں ایک مقرر خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے ’’عزیز صاحبان کیا آپ جانتے ہیں کہ بھوک اور ناقص غذا کی وجہ سے ہر روز پانچ سال کی عمر کے بیس سے پچیس ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، عالمی سطح پر بھوک سے ہر چھ سکینڈ میں ایک بچہ مرتا ہے ، ٹھہریئے حیران مت ہوں پاکستان میں پانچ اور چین میں آٹھ ملین افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں ، دوستو کیا آپ نے سوچا کہ ہم اتنا کھانا کیوں ضائع کرتے ہٰیں کیونکہ یہ ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ ہے ، شادی بیاہ دیکھ لیں یا رمضان المبارک ہمرزق کو ضائع کرتے ہیں دیکھیں آئندہ پاکستان کو تو کیا دنیا بھر کو خوراک کی کمی کا سامناہوگا ، آئیے مل کر بھوکوں کو کھانا کھلائیں یہ کار خیر ہے ‘‘۔
مقرر صاحب کے سٹیج سے اترنے کے بعد کھانے کا دور چلا اور بہت سا کھانا ضائع بھی ہوا یہ بتانے کی بات نہیں ، ان کی رزق کے ضیاع کے خلاف کی جانے والی تقریر بھی کہیں ردی کی ٹوکری میں پڑی تھی ۔ لیکن دور کہیں کھڑا ایک ہوٹل کا بیرہ اور کوڑے کے ڈھیر میں سے گلے سڑے پھل اور روٹی کے ٹکڑے چنتا ہوا ایک معصوم بچہ آسمان کی طرف دیکھ کر اب بھی شکایت کر رہے ہیں ۔