The news is by your side.

قائد‘ پاکستان اور اقلیتیں

وزیر اعظم نواز شریف نے دیوالی کے موقع پر گذشتہ برس کہا کہ اگر کسی بھی جگہ اقلیتوں کے خلاف ظلم و ستم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے اور اس میں مجرم مسلمان ہے اور ہندو بے گناہ تو وہ ہندو برادری کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔

سوال یہ نہیں کہ یہ جملے کیوں ادا کئے گئے ؟ سوال محض اتنا ہے کہ ایک جمہوری اور فلاحی ریاست میں اس یقین دہانی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیا پاکستان جیسی اسلامی فلاحی ریاست میں غیر مسلموں کے لئے کوئی جگہ نہیں یا ان کا کوئی  پرسان حال نہیں ؟ قائد کے پاکستان میں تو اقلیتوں کا تحفظ یقینی ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ لبرل ازم ، ترقی پسندی او رجمہوریت پر یقین رکھتے تھے اور یہی بنیادی اصول دو قومی نظریے کی بنیاد بھی بنے ۔

قائد اعظم نے ملکی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کو کہا ’’

آپ لوگ آزاد ہیں  ، آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی عبادت گاہوں ، مسجدوں ، مندروں ، یا کسی عبادت گاہ میں جانے کے لئے آزاد ہیں ۔ آپ کا مذہب کیا ہے ؟ فرقہ کیا ہے ؟ ذات کیا ہے ؟ قوم کیا ہے ؟ اس کا ریاست کے معاملا ت سے کوئی تعلق نہیں ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں ‘‘۔

کوئی بھی ذی شعور شخص ان فرامین سے آسانی سے ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ قائد کی نگاہوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے کیا حقوق تھے ؟ اسلام کو بھی اگر مکمل ضابطہ حیات کہا جاتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام تر پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے

اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق کے بارے میں خاص تاکید ہمارے نبی آخر الزماں نے کی ہے ۔ غزوہ بدر میں بھی غیر مسلم قیدیوں کی سزا میں تخفیف کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ مسلم ناخواندہ افراد کو تعلیم کی دولت سے سرفراز کریں ۔

آج اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش رہنے اور چپ سادھ لینے والے افراد یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں وہاں کے سپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا جنہوں نے اسمبلی میں اضافی ووٹ ڈال کر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی وہ ایک مسیحی تھے ۔

وہ یہ بات کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ جسٹس رابرٹ کارنیلس ۸ سال تک پاکستان کے چیف جسٹس رہے ۔ رانا بھگوان داس پہلے ہندو
او ردوسرے غیر مسلم فرد تھے جو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس رہے ، جنہوں نے دیہی علاقوں میں خواتین کے قتل کے خلاف آواز بلند کی ، انھوں نے کے پی کے میں ایک لڑکی کے اغوا اور چار سال تک اس کو جسم فروشی پر مجبور کرنے کے کیس کا سختی سے نوٹس لیا ۔۱۹۶۵ کی جنگ میں فلائٹ لیفٹینٹ        سیسل  چوہدی کو ان کی خدمات کے عوض ستارہ جرات سے نوازا گیا۔

لیکن کیا ان اقلیتوں کا اتنا بھی حق نہیں کہ ان کے مذہبی مقامات ان کی جانوں اور مالوں کا تحفظ کیا جائے ۔میں قوانین کے خلاف نہیں ، لیکن قوانین کا بنیادی مقصد افراد کے حقوق کا تحفظ ہے تو پاکستان میں غیر مسلموں کے خلاف توہین رسالتﷺ کے قانون کو کیوں منفی انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے ؟ اسلام تو دین فطرت ہے جو مظلوموں کو پناہ دیتا ہے جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے تو یہ سب صورتحال جو آج پیدا کی جارہی ہے اس کا کیا مقصد ہے ؟

پاکستان میں غیر مسلموں پر حملوں اور پر تشدد واقعات کی تاریخ اب خونچکاں ہوتی جا رہی ہے خواہ وہ ۲۸ اکتوبر ۲۰۰۱ کو ایک چرچ پر حملے میں بچوں سمیت سولہ افراد کی ہلاکت ہو یا پشاور میں چرچ پر حالیہ حملہ ، ۲۰۰۲ میں کراچی میں مسیحی فلاحی ادارے کے عملے کےاراکین کو کرسیوں سے باندھ کر گولیاں مارنے کا واقعہ ہو ، ۲۰۰۵ میں پادری بابر سمیوئین اور ان کے ڈرائیور کی نعشوں کا پشاور کے ناصر باغ کے احاطے سے ملنا ہو ، یہ سب ظلم کے نظام کا ایک تسلسل ہے ۔

اب اگر باقی اقلتیوں میں سے ہندووں کا جائزہ لیں تو یہ صورتحال بھی پریشان کن ہے ۔ سندھ حکومت سے ایک بل پاس کروانے کی کوشش بھی کی گئی کہ سندھی نصاب میں سنسکرت کو شامل کیا جائے اور ہندوو بچوں کے لئے ایک ہندی استاد مقررکیا جائے لیکن یہ معاملہ بھی اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ہندووں کے مندروں کی بھی کوئی حفاظت نہیں کی جا رہی ۔ ۱۹۳۷ میں بنایا گیا راولپنڈی میں ایک مندر مخدوش ہو چکا ہے ۔ کے پی کے ضلع کرک کے ایک گاؤں میں  ’کرشن دوارا ‘نامی مندر بھی اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے ۔

امیر المومنین  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ ’’ معاشرہ کفر پر تو چل سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں ۔‘‘

ہمارے مسیحی ، ہندو ، پارسی ، سکھ اور دیگر اقلیتی بہن بھائیوں نے بھی پاکستان کے لئے ہماری طرح قربانی دی ہے  اور و ہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس ملک کو قائد کا پاکستان بنا سکتے ہیں اور قائد کا پاکستان تب بنے گا جب یہاں اقلیتیں خوف سے منہ چھپائے نہیں ، تحفظ اور فخر کے احساس سے سر اٹھائے جئیں  گی ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں