The news is by your side.

ذکرکچھ پرانی کتابوں کی دکانوں کا

کہا جاتا ہے کہ ایک اچھی کتاب کی تعریف یہ ہے کہ جب بھی اسے پڑھا جائے تو نئے معانی اور نئی فکر سامنے آتی ہے ۔ انسان پر سوچ کے نئے زاویے آشکار ہوتے ہیں اور اسکا ادب سے لگاؤ بھی بڑھتا ہے ۔کتاب کبھی پرانی نہیں ہوتی اس لئے کتابوں کا تحفہ بھی ہمیشہ نایاب ہوتا ہے۔

موجودہ دور میں درسی کتب خریدنا مشکل ہے تو باقی کتابیں لینا تو الگ کہانی ہے۔ اب ہر فرد کی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ نئی بک شاپ سے درسی کتب حاصل کرے۔دوسری جانب  پرانی اور نایاب کتب کا حصول بھی آج کل ایک مشکل مرحلہ بن کر رہ گیا ہے ۔ اول تو انٹرنیٹ اور موبائل نے ہماری زندگیوں کو اتنا مصروف بنا دیا ہے کہ اب کتابوں کے شائقین بہت ہی کم رہ گئے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب کتب خانے  اور لائبرئریاں سجا کرتی تھیں ، کتابوں کے میلے سجا کرتے تھے اور علم حاصل کرنے کے شائقین اپنی پیاس بجھانے کے لئے دور دور سے بڑے شہروں میں ہونے والے ان میلوں میں شرکت کرتے تھے ۔

book-post-1
ان  میلوں میں کتابوں پر رعایت بھی دی جاتی تھی ، مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ کتابیں بہت سستی اور معیاری بھی ہوتی تھیں ، نہ تو آج کل کی کتابوں کی طرح کے گھٹیا ٹائٹل ہوتے تھے اور نہ ہی عامیانہ جملے اور نہ ہی ہلکے کاغذ کا استعمال کیا جاتا تھا۔

سو ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ غربت اور ضرورت کے اسی ماحول نے اولڈ بک ہاؤسز کو رواج دیا ۔جہاں پرانی اور نادر کتابیں بھی آسانی سے مل جاتی ہیں ۔ درسی کتب اور گائڈز کے ساتھ ساتھ شائقین کی دل چسپی کے لئے شاعری ، نثر ، افسانے ، مختصر کہانیاں اور مضامین کی ایک وسیع رینج بھی موجود ہوتی ہے۔

book-post-2

یہ خبر دلچسپی سے خالی نہیں کہ نوبیل انعام یافتہ ناول نگار گیبریل گارشیا مارکیز کے شہرہ آفاق ناول ’’ تنہائی کے سو سال‘‘ کا چوری ہونے والا پہلا ایڈیشن بوگوٹا میں پرانی کتابوں کے سٹال سے ملا ۔یہ ناول ۱۹۶۷ میں شائع ہونے والا پہلا نسخہ تھا۔

پاکستان مییں ایک گیلپ سروے کے مطابق کتب بینی کا رحجان دل چسپی کے حوالے سے نظر آتا ہے ۔ یہاں ۴۲ فیصد افراد جنرل نالج ، ۲۶ فیصد فکشن اور سات فیصد شاعری کی کتب پڑھتے ہیں جبکہ حیران کن طور پر ۶۱ فیصد طبقہ کوئی کتاب نہیں پڑھتا ۔

خیر ذکر ہو رہا ہے اولڈ بک ہاؤسز کا تو جو لوگ پڑھنے کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن پیسے کی کمی کی وجہ سے کتاب نہیں خرید سکتے۔ایک طرح سے پرانی کتابوں کی دکانوں نے ان کے اس شوق کی تکمیل کر دی ہے خواہ یہ صرف کسی حد تک ہی ہے ۔ لاہور ، کراچی ،راولپنڈی اور پشاور میں بڑی عمدہ ، کم قیمت اور نادر کتب دستیاب ہیں اور لاہور کے فٹ پاتھ پر کتابیں بیچنے والوں کے لئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خود بھی بہت اچھے کتب بین ہوتے ہیں ، انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی کیا پسند ہے اور وہ اسکو اچھے مشورے بھی دیتے ہیں ۔

book-post-4

یہ کتابیں ایسی بھی ہیں جنہیں آُپ خرید تو لیتے ہیں مطالعے کے بعد اگر دل چاہے تو فروخت بھی کر سکتے ہیں ۔تاہم کتابوں کو فرو خت کرتے ہوئے ہم دکان دار کا مفاد نظر انداز نہیں کر سکتے جو نہایت آسانی سے کم قیمت پر کتاب لیتے ہیں کہ جناب اس کا ایڈیشن پرانا ہے ، مارکیٹ ویلیو نہیں ہے جبکہ یہی کتابیں جب خریدی جاتی ہیں تو دگنی قیمت وصول کی جاتی ہے اور اصل قیمت کو نہایت ہوشیاری سے مٹا دیا جاتا ہے ۔

ایک مثبت ذہن کی خوراک غور و خوض ہے جو یقینا کتابوں سے ملتی ہے ۔ ہر شخص باقاعدگی سے لائبریری نہیں جا سکتا اور پھر اس میں وقت اور دورانیے کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بھی کئی اچھی کتابیں وقت کی کمی کے باعث نہیں پڑھی جا سکتیں۔

لیکن اولڈ بک ہاؤسز نے اس مشکل کو بھی آسان بنا دیا ہے کہ اب آپ اپنی مرضی سے اپنی من پسند کتابیں خرید سکتے ہیں اور جب تک دل چاہے پڑھتے رہیے کوئی روک ٹوک نہیں کہ جناب ابھی چلیں واپس کرنی ہے ۔
book-post-3
اولڈ بکس پر جاتے ہوئے سب سے پہلے اپنی مطلوبہ کتب کی فہرست مرتب کر لینا ہی بہتر ہوتا ہے کیونکہ اولڈ بک ہاؤس کوئی لائبریری نہیں ، یہاں کتابیں بہت زیادہ تعداد میں ہوتی ہیں اور بکھری ہوئی ہوتی ہیں جن کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔

سو چاہیے تو یہی کہ اس کام کے لئے کوئی چھٹی کا دن نکالیے جب فراغت سے اچھی کتابوں کو ڈھونڈ سکیں ، یہاں پر ایک اور چیز بھی بھولنے والی نہیں کہ یہاں پر طرح کی کتابیں ہیں ، اگر آپ نے اچھی اور معیاری کتب حاصل کرنی ہیں تو اس کے لئے اپنے بڑوں یعنی بہن بھائی ، والدین اور اساتذہ کی خدمات حاصل کریں ۔ اگر وہ آپ کے ساتھ جا نہیں سکتے تو آپ ٹیلی فون پر بھی ان سے کتابوں کے نام معلوم کر سکتے ہیں یا اچھی کتابیں نیٹ پر بھی تلاش کر سکتے ہیں ۔

book-post-5
انگریزی کے ناول اور کتابیں آپ کو اردو سے مہنگے داموں ملیں گی ، اسلئے کوشش کریں کہ وہ چند ایک ہی خریدیں اور اگر لیں بھی تو اس میں بھی بڑے مصنفین کی کتابوں کو ذہن میں رکھا جائے کیونکہ نیا آنے والا بندہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اگر اولڈ بک ہاؤسز میں شلیف نہیں بنائے جا سکتے تو کم ازکم ایک بندہ یا سیلز مین ضرور مقرر کیا جاسکتا ہے جو کہ مختلف کتابوں کے بارے میں گاہکوں کی راہنمائی کر سکے ۔

درحقیقت مہنگائی کے اس دور میں پرانی کتابوں کی ان دکانوں نے ایک اچھی روایت قائم کی ہے ، مقصد تو علم حاصل کرنا ہے ، حدیث نبوی بھی ہے کہ علم مومن کا گم شدہ مال ہے یہ جہاں سے ملے لے لو ۔سو کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بری صحبت سے بہتر ہے کہ انسان کتابوں سے دوستی کر لے جو کہ اس منافقانہ دور میں اور بھی بہتر ہے ۔۔ تو کیا خیال ہے آُ پ کا ؟ چلیں کسی اولڈ بک ہاؤس پر ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں