بچپن کی کئی یادیں باوجود کوشش کے انسان کے ذہن سے محو نہیں ہوتیں ان خوشگوار اور اچھی دونوں طرح کی یادیں شامل ہوتی ہیں ، تاہم میں نا خوشگوار یادیں مثبت رویوں کو جنم دیتی ہیں لہٰذا ان کو فراموش نہیں کرناچاہیے ۔مجھے یاد ہے کہ ہم بچپن میں جب بھی اپنے ننھیال لاہور جایا کرتے تھے ، ماموں اور خالہ سے بس یہی فرمائش ہوا کرتی تھی کہ ریلوے اسٹیشن پر لینے بھی آئیں تو کہانیوں کی کتابوں کے ساتھ ۔
مزے کی بات یہ تھی کہ لاہور اسٹیشن اس وقت اتنا بارونق تو نہیں تھا لیکن کتابوں کے سٹالز کے حوالے سے ایک چلتا پھرتا کتب خانہ ہی معلوم ہوتا تھا ۔ خیر ان رسالوں کی وجہ سے ہم تمام خالہ اور ماموں زاد بہن بھائیوں میں باقاعدہ جھگڑے ہوا کرتے تھے کہ پہلے مجھے ماہنامہ ٹوٹ بٹوٹ دو یا پہلے نونہال پڑھوں گی وغیرہ وغیرہ ۔شاید اس لئے کہ ہم ان معصوم کہانیوں کے عادی ہو چلے تھے اور وہ دور ہی ایسا سادہ اور کھرا تھا۔
ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ڈورا، جانی براوو اور پوگو کن بلاؤں کے نام ہیںسیدھی سادی سی ایک تفریح اچھے اور معیا ری رسالے پڑھ لینا یا سکول جانے سے قبل پی ٹی وی پر بچوں کے ہر دلعزیز میزبان جناب مستنصر حسین تارڑ کا وہی مخصوص انداز میں کہنا ٹون ٹون کارٹون اور وہی کارٹون ہم دیکھ لیا کرتے تھے واہ کیا مزے کی زندگی تھی ہماری۔
سکول میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب کی نظموں کی کتاب ’ جھولنے‘ پڑھا کرتے تھے باقی ماندہ رسائل جن میں نونہال ، تعلیم و تربیت ،جگنو ، آنکھ مچولی ، پھول وغیرہ شامل تھے وہ بھی گھر میں آتے تھے۔ موجودہ دور میں رسائل کی تعداد تو بہت بڑھ گئی ہے لیکن معذرت کے ساتھ اب بچوں کے ادب کا معیار بہت ہی پست ہو چکا ہے۔
بچوں کا اسلام ‘جناب اشتیاق احمد صاحب نکالا کرتے تھے۔ بچوں کے لئے طویل ترین ناول لکھنا بھی انہی کا کارنامہ ہے ۔نونہال جناب حکیم محمد سعید کی کاوش تھی ، تعلیم و تربیت شروع ہی سے ایک اچھے ادارے نے شروع کیا ، فیروز سنز جنہوں نے اپنے رسالے کے ساتھ علیحدہ سے کہانیاں بھی شائع کیں جن میں رنگین تصاویر بھی ہوتی تھیں ۔ نونہال کے ہمدرد بک فاؤ نڈیشن کے زیر اہتما م بھی کافی کہانیاں کتابی شکل میں شائع ہوئی ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ رسائل جن میں خاص طور پر نونہال اور تعلیم و تربیت ی بنیادی وجہ کا ذکر کروں گی ان کی مقبولیت میں کمی کیوں نہیں آئی۔ اس کی وجہ ان کے قد آور قلم کار تھے ۔ میرزا ادیب ،ثاقبہ رحیم الدین ، محمو دخاور ، اشتیاق احمد ، مسعو د احمد برکاتی ، عباس العزم ، پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی ، کمال احمد رضوی اور سید نظر زیدی ان سب نے ان رسائل میں لکھا۔
بچوں کے ادب میںناب احمد ندیم قاسمی کی تخلیقات نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ناٹک ‘ بشامل ‘ نئی نویلی کہانیاں اورتین دوستوں کی کہانیاں ہیں ان میں شامل ہیں۔
معروف مصنف اے حمید نے بھی بچوں کے لئے بہت سی کہانیاں لکھیں، نومی پر کیا گذری پر تو باقاعدہ ڈرامہ بھی بنایا گیا۔ڈاکٹر اسد اریب ملتان نے بچوں کے ادب پر کافی تحقیق کی ہے جبکہ جامعہ کراچی کے پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کا نام بھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔
اب اگر چند مسائل کی طرف نشان دہی کی جائے تو معلوم ہو گا کہ پہلے تو بچوں کے ادب کو ادب میں شمار ہی نہیں کیا جاتا تو اس کے ادیب کو کیا مقام دیا جائے گا ؟۔
حالانکہ بچوں کے لئے لکھنے والے بہت کم ہیں اور یہ ادب لکھنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ اس کے لئے بچوں کی نفسیات اور ان کی فطرت کو مدنظررکھ کر ان کی دلچسپیوں کے مطابق کہانی بنی جاتی ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہےکہ نئے لکھنے والے بچوں کی کوئی خاص حوصلہ افز ائی نہیں کی جاتی مکالمے کے بجائے مضمون نگاری سکھائی جا رہی ہے جو ایک اچھی کہانی کی موت ہے ۔
انگریزی میں بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں، چند بڑے اخبارات ہفتے کو ایک چھوٹا سا میگزین نکالتے ہیں لیکن اسکے صفحات کم اور زبان سادہ نہیں ہوتی۔ کہانیاں وہی روایتی جن بھوتوں والی اور اگر سائنسی ہیں تو اتنی بور کہ بچوں کا دل ہی نہیں چاہتا کہ ان کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
ہم اپنے بچوں کو تفریحی ادب تو دیتے نہیں ، اچھی کہانیاں نہیں سناتے ، بزرگوں کے ساتھ وقت گذارنے نہیں دیتے اور بڑی آسانی سے یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے ۔بچے تو ہمارے نوجوان معاشرے کا محروم ترین طبقہ ہیں ، ان کے ساتھ جبری مشقت کا ظلم ہو رہا ہے ، جنسی اور جسمانی زیادتی ہو رہی ہے ، کھیلنے کے لئے پارک اور تفریحی ادارے نہیں۔ کیا بچوں کے لئے لکھنے والوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ؟۔