پاکستان میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی درندگی کے پیش نظر جنوری 2015 میں نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا جس کے چند پوائنٹس یہ ہیں۔
دہشت گردوں کی مالی معاونت روکی جاے گی
دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے وقت مقرر کیا جاے گا
فوری انصاف کے لیے مقدمات کا فیصلہ کم سے کم وقت میں ہوگا
کالعدم تنظیموں کو دوبارہ فعل نہیں ہونے دیا جاے گا
فاٹا میں انتظامی و ترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی
ملک میں مسلح جتھے بنانے کی اجازت نہیں ہوگی
دہشت گردوں کے مواصلاتی رابطوں کے نظام کو ختم کرنا ہوگا
پرنٹ الیکٹرونک میڈیا یا کسی بھی میگزین کے ذریعے کسی بھی قسم کی انتہا پسندی ، فرقہ واریت کو ہوا دینے والے مواد کی روک تھام کی جائے گی
مذہبی انتہا پسندی کا مکمل ختم کیا جائے گا اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا
نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کو کام نہیں کرنے دیا جائے گا
مگر افسوس ان پوائنٹس میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اکثریت پاکستانیوں کو تو ان پوائنٹس اور نیشنل ایکشن پلان کا کچھ پتا ہی نہیں اور کچھ پاکستانی نیپ نیشنل ایکشن پلان کو نو ایکشن پلان سمجھتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ کالعدم تنظیموں کا کھلے عام اپنی سرگرمیاں کرنا ، چندہ اکھٹا کرنا اور تو اور حکومت اور انتظامیہ کی ناک کے نیچے کھلے عام ریلیاں نکالنا ہے . جب عوام یہ سب کام ہوتے دیکھے گی اور وفاقی وزیرداخلہ کو کالعدم تنظیموں کے لوگوں سے ملتے اور میٹنگ کرتے دیکھے گی تو کنفیوژہونا تو جائزہے کہ آخر یہ پاکستان میں دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کیلئے جو حکمت عملی ترتیب دی گئی تھی آیا اس کا مطلب نیشنل ایکشن پلان ہے یا نو ایکشن پلان ہے۔
دوسری جانب کراچی آپریشن کی تمام تر کاوشوں کے باوجود کالعدم تنظیموں کی آزادانہ نقل و حرکت اس بات کا اندیشہ دکھائی دیتی ہے کہ کراچی میں مختلف مذہبی و انتہا پسند تنظیموں کو بھرپور اسپیس فراہم کیا جارہا ہے ۔شہر کراچی میں گزشتہ تین سال سے آپریشن جاری ہے مگر اس کے باوجود دہشت گرد باآسانی اپنے اہداف پورے کرلیتے ہیں۔ اسی آپریشن کے دوران دہشت گردوں نے، سبط جعفر پروفیسر شکیل اوج کو دن دیہاڑے نشانہ بنایا، اسی طرح دن کے اجالے میں سانحہ صفورا میں اسماعیلی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا، سماجی کارکن سبین محمود ، خرم زکی اور نہ جانے کتنے بیگناہ معصوم ان انتہا پسند دہشت گردوں کی درندگی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی بیگناہ معصوم لوگ کھلے عام دہشت گردوں کی فائرنگ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ، 29 اکتوبر ہفتہ کو5 سے 6بجے کے درمیان کراچی کے علاقے ناظم آباد میں مجلس کے دوران دہشت گردوں کی فائرنگ سے 4 افرادجاں بحق اور 5 افراد زخمی ہوئے جس میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں حالانکہ یہ کوئی پہلا واقع نہیں کہ ایک مخصوص کمیونٹی کو اس طرح سے نشانہ بنایا گیا ہو اس سے قبل رواں ماہ اکتوبر میں ہی لیاقت آباد میں در عباس امام بارگاہ پر بھی دہشت گرد حملہ ہوچکا ہے جس میں ایک نوجوان جاں بحق اور 15 زخمی ہوئے ۔
شہر کراچی میں کالعدم تنظیموں کی ریلیوں میں لگنے والے نعروں اور ایک مخصوص فرقے کے خلاف نفرت انگیز تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں پھر بھی انہیں بے لگام چھوڑدینا جوکہ وفاقی و صوبائی حکومت کی سنجیدگی کے اوپر سوالیہ نشان ہے کہ کیا ان درندہ صفت دہشت گردوں کو پاکستان میں حکومتی سرپرستی حاصل ہے ۔ ایک طرف وفاقی دارلحکومت اسلام آباد آبپارہ میں انہیں سیکیورٹی کے ہمراہ اپنے جلسے جلوس کی اجازت دی جاتی ہے تو دوسری جانب شہر کراچی اور اندرون سندھ میں ریلیوں کی اجازت ہے تو ان پر کس طرح کی پابندی ہے۔ پاکستانی قوم کو دھوکے میں نہ رکھا جاے ، ریاست کواگر دیگر کاموں سے فرصت ملے تو ان درندہ صفتوں کو لگام دینے کے لیے بھی کوئی عملی اقدام کیا جائے ورنہ پاکستان میں یوں ہی انسان مرتے رہیں گے اور درندہ صفت دندناتے رہیں گے ۔
تمام دہشت گردی کے واقعات اور سانحات میں ملوث دہشتگرداور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے چاہے وہ سانحہ پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ ہو یا پھر کراچی کے علاقے ناظم آباد میں فرقہ واریت کے واقعہ ہو۔ جب تک کالعدم تنظیموں پر مکمل پابندی عائد نہیں کی جاتی انکی نفرت انگیز تقاریر پر کوئی کاروائی عمل میں نہیں آتی اس وقت تک کراچی آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ پاکستان اور کراچی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ جنونیت اور انتہا پسندی ہے خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی یا پھر فرقہ وارانہ نوعیت کی ہو۔