سیف سٹی پراجیکٹ کے حوالے سے کئی اہم باتیں سننے میں آ رہی ہیں ۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کو جدید دنیا کے مقابلے پر کھڑا کر دے گا ۔ شاید عام حالات میں یہ اتنا دلفریب خیال نہ ہوتا جتنا کہ موجودہ حالات میں ہے ۔ ایک عام شہری کے لئے حیرت کی بات یہ ہے کہ جو ملک دہشت گردی کے خلاف تاحال ایک بڑی جنگ لڑنے میں مصروف ہے وہاں سیف سٹی کے نام سے ایسا پراجیکٹ لانچ ہو رہا ہے جو شہریوں کی حفاظت کا ضامن بنے گا ۔ ایسے میں پس پردہ ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اور آخر کیا طریقہ کار ہے جس پر عمل کرتے ہوئے پولیس شہروں کو محفوظ بنا سکتی ہے ۔
اس سلسلے میں معلومات حاصل کیں تو کئی انکشافات ہوئے ۔ ان معلومات کی بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پنجاب پولیس روایتی پولیس کلچر کوخیرباد کہتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کی جانب نہ صرف مائل ہو چکی ہے بلکہ اسے کافی حد تک اپنا بھی چکی ہے ۔مختلف چینلز پر چلنے والی رپورٹس بھی یہ گواہی دے رہی ہیں کہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے محکمہ پولیس میں جدید آئی ٹی ٹیکنالوجی کو متعارف کرواتے ہوئے پولیس کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق درست سمت گامزن کر دیا ہے جس کے خوشگوار نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ۔حکومتِ پنجاب لاہور کے بعد صوبے کے 5 بڑے شہروں میں پراجیکٹس کا آغاز کر رہی ہے اور اس کے بعد اس کا دائرہ کار بتدریج بڑھایا جائے گا۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا چالان خودکار کیمرے کریں گے
اس منصوبے کے تحت شہر بھر میں کیمرے نصب کئے جائیں گے ۔ ان کیمروں کی مانیٹرنگ کے لئے تربیت یافتہ افراد موجود ہوں گے اور شہر بھر کی نقل و حمل کا ریکارڈ پولیس کے اس سنٹر میں محفوظ ہوتا رہے گا بلکہ اس کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر میں بیٹھ کر سارے شہر کی نقل و حرکت کو مانیٹر بھی کیا جا سکے گا ۔ بنیادی طور پر یہ کئی منصوبوں کو لنک اپ کرنے والا ایسا منصوبہ ہے جو پولیس کی مختلف آپریشنل صلاحیتوں کو یکجا کر کے تمام ریکارڈ کو ایک کلک پر لے آئے گا ۔ اس طرح مرکزی ایمرجنسی کال سینٹر ، سی سی ٹی وی کنٹرول ، کرائسسز مینجمنٹ سسٹم ، ڈسپیچنگ سینٹر ، تھانوں کا ریکارڈ ، مجرموں کا ڈیٹا اورسٹریٹجک آپریشن سسٹم باہم مل جائیں گے ۔بظاہر یہ سارے سسٹم اپنے اپنے دائرہ کار میں ہی کام کر رہے ہوں گے لیکن معلومات کا تبادلہ ، فوری اطلاع اور ریکارڈ تک رسائی یقینی بنادینے سے دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی ۔ اس منصوبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف لاہور میں ہی آٹھ ہزار سے زائد کیمرے لگائے جا رہے ہیں ۔ دوسری جانب ڈیوٹی پر موجود ڈولفن فورس ،پولیس ریسپانسیونٹ اورموبائل سکواڈ کی گاڑیوں میں بھی 6 ہزار سے زائد کیمرے نصب کر کے نگرانی کا عمل مضبوط بنایا جائے گا۔
بھاگنے والے چور ڈاکوؤں کو جدیدکیمروں پر مانیٹر کرتے ہوئے گرفتار کیا جائے گا
جب ہمیں سیف سٹی پراجیکٹس کے بارے میں معلوم ہوا تو پہلا خیال یہی تھا کہ اس کا مقصد صرف نگرانی اور سکیورٹی ہے ۔ جدید دنیا میں سکیورٹی گارڈز اور پروٹوکول کلچر نہیں ہے ۔ اس منصوبے کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس سے شہریوں میں احساس تحفظ کو مزید فروغ ملے گا کیونکہ اس سیٹ اپ کی بدولت سارا شہر پولیس کی آنکھوں کے سامنے ہو گا ۔ اگر کہیں کوئی شخص جرم کرتا بھی ہے تو فورا ہی گھیرے میں آ جائے گا کیونکہ اس کا تعاقب کرنے والے اہلکاروں کو مانیٹرنگ ڈیسک پر بیٹھا شخص ملزم کی لوکیشن سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کر رہا ہوگا ۔ اگر آپ نے کسی فلم میں یہ منظر دیکھا ہو تو یقیناًیہ بات بھی نوٹ کی ہو گی کہ بھاگنے والا ملزم ہمیشہ سامنے سے گھیر کر پکڑا جاتا ہے ۔ وہ کسی گلی سے باہر نکلتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چاروں جانب سے گھیر لیا گیا ہے ۔ ہمارے یہاں ملزمان اس لئے بھی فرار ہو جاتے ہیں کہ ان کا پیچھا کرنے والوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اب ملزم کس راستے پرجائے گا ۔ سیف سٹی پراجیکٹس کے ذریعے پولیس کو وہی نادیدہ نگاہیں مل رہی ہیں جو ملزم کا پیچھا کرنے والے اہلکار کو بھاگنے والے ملزم سے دو قدم آگے لا کھڑاکرتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ صرف نگرانی اور سکیورٹی تک محدود نہیں ہے ۔
یورپ کی طرح پاکستان میں بھی پولیس ایک مرکز سے پورے شہر پرنظررکھے گی
سیف سٹی پراجیکٹ کے ذریعے شہر کی مرکزی شاہراہوں پر کیمرے نصب کئے جا رہے ہیں ۔ یہ کیمرے ٹریفک مینجمنٹ کا بھی کام کریں گے ۔ ان کیمروں کی مدد سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی تصاویر اورگاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تصاویر حاصل کی جائیں گی جن کی مدد سے ای ٹکٹنگ سسٹم کے ذریعے چالان خلاف ورزی کے مرتکب شہریوں کے گھر بھیجا جائے گا ۔ اس طرح جہاں ہر اس شخص کا چالان ہو گا جو قانون کی خلاف ورزی کرے گا وہیں عوام کی بے جا چالان کی شکایت بھی دور ہو جائے گی ۔
ویسے ذاتی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے چالان کم ہونے کی بجائے مزید ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم جس طرح قوانین توڑنے کی بدترین عادت میں مبتلا ہیں اس کا علم سب کو ہے۔ بہر حا ل وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف اورآئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی کوششوں سے اگر پنجاب دنیا کا جدیدصوبہ بننے جا رہا ہے تو ہمیں اس کاوش کو سراہنا چاہئے کیونکہ محفوظ اور جدید پاکستان ہی ہم سب کا خواب ہے۔