انسانی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے حقوق کی آڑ میں اپنے مقابل افراد کے حقوق کو سلب کرتا آیا ہے ۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ میں ہوں یا آپ ہم سب کو اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کی بجائے حقوق زیادہ نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے ایک ملک کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے اور کرپشن جنم لیتی ہے ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرپشن ہوتی ہے تاہم اس کا ریشو ہر جگہ پر مختلف ہے ۔یہ بھی نہیں ہے کہ بدعنوانی صرف اشرافیہ کرتی ہے کیونکہ کرپشن ہمیشہ نچلی سطح سے شروع ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتی ہے ۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لئے نیب کا ادارہ تشکیل دیا گیا ۔ آج ہمارا موضوع نیب ہی ہے ۔
نیب کے قیام کے مقاصد
نیب کا ادارہ انسداد بدعنوانی کے لئے انیس سو ننانوے میں قائم کیا گیا تاہم ۲۰۰۹ میں حکومت نے احتساب ایکٹ متعارف کروایا جس کے ذریعے یہ طے پایا کہ عوامی عہدیداروں کے احتساب کمیشن کا صدر
دفتر اسلام آباد میں ہوگا اور اگر چیئرمین چاہیں گے تو اس کے دفاتر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی قائم کئے جا سکتے ہیں ۔
پاکستان میں احتساب عدالتوں سے متعلق قوانین
سنہ دو ہزار بارہ میں نیب کے بارے میں نئے سرے سے قوانین متعارف کروانے کے لئے قانون سازی کی گئی ۔ پاکستان میں پہلے نافذ العمل احتساب کے قانون میں بدعنوانی کے تحت ۱۴ سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی تھی لیکن مجوزہ قانون میں بدعنوانی کے تحت سزا کی حد زیادہ سے زیادہ سات برس تک مقرر کی گئی ۔ پہلے احتساب بیورو کو یہ اختیار تھا کہ وہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والےکسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کر سکتا تھا لیکن اب صرف پانچ کروڑ سے زائد روپے کی بدعنوانی کے مقدمات کے بارے میں غور ہوتا ہے ۔
نیب میں زیر التوا مقدمات
ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ( ۲۱ اپریل ۲۰۱۳ ) نیب میں ابھی بھی تین سو سے زائد ہائی پروفائل کیس زیر التوا ہیں ۔ نیب نے یہ دعوی کیا تھا کہ سارے ہائی پروفائل کیسوں کو ری اوپن کیا گیا ہے اس سلسلے میں کئی کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ نیب کے ترجمان رمضان ساجد کے مطابق دو سو سے زیادہ کیسوں کے بارے میں جلد فیصلے ہونے والے ہیں اور نیب بلا امتیاز تمام بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کرے گا ۔
کسی بھی ملک میں کرپشن یا بدعنوانی حقوق و فرائض
کے مابین متصادم صورتحال سے پیدا ہوتی ہے
نیب کے سابق چئیر میں ایڈمرل فصیح بخاری کے مطابق وہ سابق صدر زرداری کے دور میں اہم کسیوں کو ری اوپن کرنے کے حق میں تھے، لیکن انھوں نے اس سلسلے میں کسی قسم کی دل چسپی کا اظہار نہیں کیا ۔
نیب کی موجودہ کارکردگی
موجودہ چئیر مین قمر زمان چوہدری نے نیب کے ادارے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور تبدیلیاں کی ہیں تاکہ یہ ادارہ بہتر طور پر اپنا کام کر سکے ۔ نیب کے تمام علاقائی دفاتر اور ہیڈ کوارٹرز کے تمام ڈویژن کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے معیاری گریڈنگ کا نظام وضع کیا گیا ہے ۔ چئیر مین کی ہدایت پر کام کو مقررہ وقت پر نمٹانے کے لئے ۱۰ ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے ۔ جس میں سے دو ماہ میں مقدمات کی شکایات کی جانچ پڑتا ل چار ماہ میں انکوائری اور چار ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے ۱۰ ماہ میں ریفرینس احتساب عدالت میں بھجوانے کی مدت مقرر کی گئی ہے ۔ پہلی مرتبہ نو دسمبر کو نیب کے اہم دنوں کو منانے کا فیصلہ کیا گیا اور پہلی دفعہ یکم دسمبر سے ۱۳ دسمبر تک انسداد بدعنوانی کے دن منائے گئے اور نیب کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ بھی تیار کی گئی کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک تھیم سانگ بھی تیار ہوا جس کا عنوان ’ سے نو ٹو کرپشن‘ تھاجس کو تمام ٹی وی چینلزز نے چلایا ۔
احتساب کے ادارے کے پہلے پانچ علاقائی دفاتر تھے جن میں لاہور ، کراچی ، پشاور اور کوئٹہ بھی تھے ۔ چوہدری قمر زمان جو موجودہ چئیر مین ہیں نے دو دفاتر ملتان اور سکھر میں بھی کھولے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو آسانی ہوئی کیونکہ پہلے انھیں بدعنوانی کی شکایات درج کروانے لاہور کے آفس آنا ہوتا تھا ۔ نیب لاہور کی کارکردگی گذشتہ سال بہت اچھی رہی ۔ انھیں ۴۸۷۴ شکایات موصول ہوئیں جن پر قانون کے مطابق عمل درآمد ہوا ۔ ۳۱۲ میں سے ۲۷۰ شکایات کی جانچ پڑتا ل مکمل کی گئی اور ۳۴۱ انکوئریوں میں سے دو سو بارہ کو مکمل کیا گیا ۔ نیب لاہور نے ۵۶۱ بد عنوان افراد کو گرفتار کیا اور ان سے ۔۶۵۳۔۱۰۵۶ملین روپے برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے ۔
وزیر اعظم نواز شریف کی نیب پر حالیہ تنقید
وزیراعظم نے سولہ فروری کو رواں سال بہاولپور میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں کہا کہ نیب کی کارروائیاں ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں اسے اپنا کام ذمہ داری سے کرنا چاہیے۔ نواز شریف نے نیب کو یہ بھی وارننگ دی کہ اگر انھوں نے اپنے معاملات درست نہ کئے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی ۔ روزنامہ پاکستان (مجیب الرحمان شامی)نے لکھا ہے کہ غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان کو تنقید کی نظر سے دیکھا اور کہا کہ وزیر اعظم کو سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے تھا ۔ اور اس سے پہلے پی پی پی نے بھی سندھ میں احتساب کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔،
نوائے وقت میں خالد محمود ہاشمی نے اپنے ایک کالم میں لکھا
’’سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے ۱۵ جون ۲۰۱۳ سے آج تک نیب سے آنکھیں کیوں بند کر کیے رکھی تھیں ۔ نیب کے معاملے میں وزیراعظم قانونی طور پر بے بس ہیں ۔ چئیر مین نیب کے عہدے کی معیاد چار سال ہے اور اسےوقت سے پہلے سپریم جیوڈیشیل کونسل ہٹا سکتی ہے ، نیب ۱۹۹۹ میں کرپشن کے خاتمے کے لئے وجود میں آیا اور جب اس نےپنجاب میں مسائل کی نشان دہی کی تووزیراعظم نے اسکے اختیارات محدود کرنے کی بات کی ہے۔
اپوزیشن راہنمائوں کے نیب کے حوالے سے حالیہ بیانات اورموقف
سابق صدر پرویز مشرف نے ایک رپورٹ کے مطابق کہا کہ نیب میں اصلاحات ہونی چاہیں کیونکہ یہ ایک سنجیدہ ادارہ ہے اور پندرہ سال میں اسکی کارکردگی بہتر ہوئی ہے ۔ پی ٹی آئی کے لائرز ونگ کے گوہر نواز سندھو نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی جس میں ان کا موقف تھا کہ وزیر اعظم کی قومی ادارے پر تنقید دراصل ایک وارننگ تھی جو وزیر اعظم نے قومی احتساب کے ادارے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لئے کی ۔
مراد سعید رکن قومی اسمبلی نے بھی کہا کہ پنجاب میں کرپشن بے نقاب ہونے لگی تو نواز شریف نے نیب کے دائرہ کار کو محدود کرنے کی کوشش کی ۔ ، چئیرمین کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈ رکی بجائے پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہونا چاہیے ۔ مراد سعید نے یہ بھی کہا کہ پہلے بارگیننگ کا آپشن ختم کیا جائے جبکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں پولیس میں ۵۵۰ کروڑ ، سیاحت میں ۲۵۰ کروڑ ، خوراک میں ۴۵۰ کروڑ کی کرپشن کی نشان دہی کی ہے ،
سابق ڈپٹی سپیکر اور اہم راہنما میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا کہ جن پارٹیوں نے مل کر نیب بنایا تھا وہی آج اس پر تنقید کررہی ہیں۔بات اصل میں یہ ہے کہ احتساب کے کتنے ہی ادارے بنا دیے جائیں اہم چیز خود احتسابی ہے جب تک احتساب کا عمل نچلے لیول سے شروع نہیں ہو گا بڑی مچھلیاں بھی کرپشن کرتی رہیں گی ۔