The news is by your side.

کیا واقعی پنجاب کرائم فری صوبہ بنے گا؟

کوئی بھی ریاست یا ادارہ اس وقت تک طاقتور نہیں ہو سکتا جب تک وہ اندرونی طور پر مضبوط نہ ہو ۔ چین ، روس اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ ایٹمی حملے کے نتیجے میں خوفناک تباہی کے بعد جاپان نے ملکی سطح پر اپنا مورال بلند کیا اور پھر جاپانی قوم نے دنیا کو ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر دکھایا ۔ سویت یونین کے ٹوٹنے سے روس کو شدید دھچکا لگا اور کہا جانے لگا کہ روس اب کبھی دوبارہ طاقت نہیں پکڑ سکے گا ۔ اب وہی روس ایک بار پھر طاقتور ملک کے طور پر سامنے آ رہا ہے ۔ روس نے بھی اپنے آپ کو اندرونی طور پر مضبوط کیا اور اپنی داخلہ پالیسی پر توجہ دی ۔ چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ چین کو اگلی معاشی سپر پاور کہا جا رہا ہے ۔ امریکا جیسی سپر پاور بھی چین کی مقروض ہے۔ چین نے یہ کامیابی بھی اندرونی اصلاحات اور ترقی سے حاصل کی ہے ۔ یہی صورت حال اداروں کی ہوتی ہے ۔کوئی بھی ادارہ اس وقت تک اچھے نتائج نہیں دے سکتا جب تک وہ اندرونی طور پر مضبوط نہ ہو ۔اداروں کی کامیابی کا یہی راز ہے ۔ جب تک کوئی ادارہ ڈسپلن ، معیار اور ملازمین کی خوشحالی پر توجہ نہ دے تب تک اس ادارے کی کارکردگی فائلوں سے باہر نظر نہیں آتی ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں یہ راز بہت پہلے جان گئی تھیں ۔ اسی لئے ملٹی نیشنل اداروں میں ملازمین کی ویلفیئر کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ یہ ادارے اسی لئے کامیاب سمجھے جاتے ہیں کہ ان کے سربراہ خاص طور پر اپنے ملازمین کو بھاری معاوضے اور جدید سہولیات سے مزین اچھے ماحول کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ڈسپلن پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں ۔ ہمارے سامنے اس حوالے سے متعدد مثالیں موجود ہیں ۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پاکستان میں فاسٹ فوڈ سے وابستہ کئی ملٹی نیشنل فوڈ چین کام کر رہی ہیں ۔ ان کے سٹاف کی تنخواہیں ، ریسٹورنٹ کا ماحول ، فرنیچر اور ڈسپلن کا معیار ہم سب کے سامنے ہے ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل فوڈ چین مقامی مارکیٹ سے کہیں زیادہ قیمت پر اشیا فروخت کرتی ہیں ۔ جو برگر مقامی مارکیٹ میں پچاس ساٹھ روپے میں مل جاتا ہے وہی برگر ان ملٹی نیشنل کمپنیز کی فوڈ چین پر دو تین سو روپے میں ملتا ہے ۔ اس کے باوجود ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کمپنیز پر لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے ۔ عام شہری بخوشی یہ اضافی قیمت ادا کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس کے بدلے صفائی ، معیار، ڈسپلن اوراچھا ماحول فراہم کیا جاتا ہے ۔عین ممکن ہے کہ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں کام کرنے والے باورچی کے ہاتھ میں اتنا ذائقہ نہ ہو جو کسی ڈھابہ ریسٹورنٹ پر کھانا پکانے والے کے ہاتھ میں ہو لیکن اس کے باوجود سچ یہ ہے کہ فائیو سٹار ہوٹل کا باورچی اس کی نسبت کئی گنا زیادہ کما رہا ہو گا ۔ اس کی وجہ ان ملٹی نیشنل کمپنیز کامخصوص ڈسپلن اور ماحول ہے جس کی بنیاد پر وہ زیادہ کماتی ہیں ۔

ایک عرصہ سے ہم یہی عرض کرتے رہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو یہاں کے سرکاری اداروں کو ملٹی نیشنل کمپنیز کی طرز پر فعال کیا جائے ۔ جب تک ہمارے ادارے اپنے ملازمین کے معاشی مسائل حل نہیں کریں گے ۔ جب تک ان اداروں کے سربراہان اندرونی ڈسپلن پر توجہ نہیں دیں گے تب تک صورت حال بہتر نہیں ہو سکے گی ۔ کسی بھی ادارے کی ساکھ بنانے اور بگاڑنے میں اس کے ملازمین کا رویہ اور ڈسپلن بہت اہم ہوتا ہے ۔ آج کل آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے حوالے سے ایسی خبریں تواتر سے شائع ہو رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پنجاب پولیس کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے مشن پر ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل پنجاب پولیس میں چھوٹے درجے کے ملازمین کے سکیل اپ گریڈیشن کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اسی طرح ایس ایس پی ایڈمن لاہور پولیس ایاز سلیم کے حوالے سے بھی خبر آئی کہ انہوں نے آئی جی پنجاب کے حکم پر پروموشن کیسز حل کرنے شروع کئے تو ایک ہی ہفتے میں سیکڑوں ملازمین کے پروموشن کیسز مکمل کر کے بھجوا دیئے ۔ پنجاب پولیس میں اعلی سطحی احتساب سیل بنانے کی خبر بھی چند روز قبل ہی آئی ہے ۔

اب معلوم ہوا ہے کہ اگلے روز آئی جی آفس میں آئی جی پنجاب کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیاجس میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں ۔ اس اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں شرکت کرنے والے افسران میں ایڈیشنل آئی جی ویلفیئر اینڈ فنانس سہیل خان،ایڈیشنل آئی جی ڈسپلن اینڈ انسپکشن پنجاب علی ذوالنورین، ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ II-، سلمان چوہدری، ڈی آئی جی ڈسپلن شہزادہ سلطان، ڈی آئی جی ویلفیئر پنجاب وسیم سیال، اے آئی جی فنانس حسین حبیب امتیاز، اے آئی جی کمپلینٹس سید خرم علی ،اے آئی جی لاجسٹکس ہمایوں بشیر تارڑاور اے آئی جی ایڈمن اینڈ سیکیورٹی ذبیر دریشک کے علاوہ دیگر افسران بھی موجود تھے۔ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں آئی جی پنجاب نے ڈسپلن اینڈ انسپکشن ونگ کو تمام آر پی اوز اور ڈی پی اوز کے دفاتر اور تمام اضلاع کے تھانوں کی باقاعدہ انسپکشن کا حکم دے دیا ہے ۔ اس سلسلے میں اکاؤنٹس اور سٹیشنری برانچ کی تفصیلی انسپکشن کے ساتھ ساتھ اس بات پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ کوئی بھی اکاؤنٹنٹ مقررہ مدت سے زائد عرصہ سیٹ پر تعینات نہ رہے ۔ اسی طرح سرکل افسران کی کارکردگی کے حوالے سے سہہ ماہی رپورٹس باقاعدگی سے منگوانے اور ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سرکل افسران کی سرزنش کے ساتھ ساتھ شوکاز نوٹس جاری کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔

اس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق اب ایڈیشنل آئی جی ڈسپلن اینڈ انسپکشن کی نگرانی میں آر پی او، ڈی پی او، سرکل افسر، ایس ایچ اوز اور پولیس لائنز کی انسپکشن کے حوالے سے ایک چیک لسٹ تیار کی جائے گی اور ڈی اینڈ آئی کی ٹیم اس چیک لسٹ کے مطابق انسپکشن کے بعد رپورٹس مرتب کرے گی۔ اسی طرح پنجاب کی اہم تنصیبات اور پراجیکٹس کی ماہانہ انسپکشن کو روٹین کا حصہ بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔آئی جی پنجاب نے اس بات کا جائزہ لینے کا بھی کہا ہے کہ ڈی ایس پیز اور سیکیورٹی انچارج چیک پوسٹس کا باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں یا نہیں اور کیا وہ ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کا اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹس کو باقاعدگی سے چیک کرتے ہیں؟ اس حوالے سے رپورٹس باقاعدگی سے پی ایس او ٹو آئی جی کو بھجوانے کی ہدایت کی گئی ہیں ۔اس اعلی سطحی اجلاس میں ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ محکمہ پولیس میں ٹیکنیکل بنیادوں پر جو اہلکار بھرتی کئے گئے ہیں ان کی مہارت کا سالانہ ٹیسٹ لیا جائے گا اور ملازمت کے حصول کے لئے طے کردہ معیار پر پورا نہ اترنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔

آئی جی پنجاب کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس کی کارروائی سے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جا رہا ہے ۔ٹیکنیکل بنیادوں پر بھرتی ہونے والوں کی مہارت کا سالانہ ٹیسٹ لینے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کرنے کا فیصلہ انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ طریقہ کامیاب اداروں میں اپنایا جاتا ہے البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے افراد کی سالانہ بنیادوں پر ٹریننگ کا عمل بھی ہو تاکہ یہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی جدید ٹیکنالوجی کے میں بھی ماہر ہوتے جائیں ۔سالانی بنیادوں پر کارکردگی جانچنے سے جہاں سفارشی مافیا کے لئے کوئی جگہ نہیں بچے گی وہیں عملہ بھی ہمہ وقت متحرک رہے گا جس کا فائدہ عام شہریوں کو ہو گا ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس میں اس ڈسپلن کے معیار کو برقرار رکھا جائے ۔ پولیس اہلکاروں کے معاشی مسائل حل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس بہتر اسلحہ ، تربیت اور سازگار ماحول ہو گا تو یقیناًعام شہریوں کے ساتھ ان کا رویہ بھی مزید بہتر ہو گا ۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ ماضی میں پولیس اہلکاروں کے پاس ناقص اور پرانا اسلحہ تھا جس سے وہ ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے کے اہل ہی نہیں تھے ۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے جس طرح انہیں اپ گریڈ کیا ہے اور پولیس میں کئی جدید فورسز متعارف کرائی ہیں ان کی بدولت سٹریٹ کرائم میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔ اب یہ ضروری تھا کہ جدید اسلحہ ، جدید ہیوی بائیکس اور گاڑیوں کی حامل فورس کی نگرانی اور ڈسپلن پر خاص توجہ دی جائے تاکہ کسی بھی صورت ان کا منفی استعمال ممکن نہ رہے ۔ سیف سٹی پراجیکٹ ، پولیس گاڑیوں میں ٹریکرز اور کیمروں کی تنصیب سے یہ نگرانی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے ۔ اب ا حتساب اور ڈسپلن کے حوالے سے ہونے والی اعلی سطحی اجلاس کی رپورٹس خوش آئند ہیں ۔ جب احتساب کا ڈر ہو اور رپورٹ براہ راست آئی جی پنجاب تک پہنچ رہی ہو تو یقیناًپولیس اہلکاروں کی کارکردگی مزید بہتر ہو گی ۔ اسی طرح ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے چند افراد کے خلاف بھی کارروائی ہو جائے توباقی محکمہ کی کارکردگی جادوئی رفتار سے بہتر ہو جائے گی ۔ اگر پنجاب پولیس کو بہتر بنانا ہے تو اسی طرح اندرونی احتساب اور انسپکشن کے عمل کو تیز کرنا ہو گا لیکن یہ بھی یاد رہے کہ تبدیلی اسی صورت ممکن ہے جب عام اہلکار خوشحال ہونے لگے اور اس کے مسائل میں کمی واقع ہو ۔

اس بات کو سراہنا چاہئے کہ موجودہ آئی جی پنجاب محکمہ پولیس میں اندرونی اصلاحات لاتے ہوئے ویلفیئر اور آئی ٹی پراجیکٹس تیزی سے متعارف کروا رہے ہیں لیکن ضروری ہے کہ یہ ساری محنت اور کوششیں رنگ لائیں اور آئی جی پنجاب کے ترتیب دیئے اس ڈھانچہ کو مستقبل میں بھی ختم کرنا ممکن نہ رہے ۔ہمارے یہاں حکومتیں بدلنے پر پہلے دور حکومت کے اچھے کاموں کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ایسے اقدامات کا ملبہ تو سیاسی جماعتوں سے زیادہ محکموں پر ہی گرتا ہے لیکن مسائل عام شہریکے بڑھتے ہیں ۔ اگر آئی جی پنجاب کی محکمہ پولیس میں متعارف کرائی گئیں یہ اصلاحات اور پراجیکٹس مستقبل میں بھی یونہی جاری رہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کے عوام جلد ہی حقیقی تبدیلی دیکھیں گے اور پنجاب کرائم فری صوبہ کہلائے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں